ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے۔۔۔
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
شوق بہرائچی کا یہ شعر شعرو ادب سے شغف رکھنے والے تمام
لوگوں نے سن رکھا ہو گا ۔ اس سے پہلے کہ میں اپنا آج کا مدعا آپ کے سامنے رکھوں میں چاہتا ہوں کہ آپ کو
اس لافانی شعر کے خالق شوق بہرائچی کے بارے میں بھی کچھ بتاؤں کیونکہ بہت سے لوگوں
کو یہ شعر تو ازبر یاد ہو گا مگر وہ اس شعر کے خالق کوکم ہی پہچانتے ہیں۔ بلکہ بہت
سے لوگ شوق بہرائچی کے نام سے بھی واقف نہ ہوں گے۔
شوق بہرائچی کا اصل نام سید ریاست حسین رضوی تھا۔ ان کی
پیدائش بھارت میں ایودھیا کے شہر فیض آباد میں ہوئی۔ سید واڑا محلہ میں جنم لینے
والے سید ریاست حسین رضوی نے ایک زمیندار گھرانے میں 1884 کو آنکھ کھولی تھی۔ ریاست
حسین تلاش معاش میں بہرائچ گئے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ یوں ان کا نام تخلص
اور بہرائچ کی مناسبت سے شوق بہرائچی مشہور ہو گیا۔
شوق بہرائچی نے کا لکھا یہ شعر آج پاکستان کے حالات پر کتنا
صادق اترتا ہے کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ یہ ارض وطن آج اس شعر کی مجسم
تصویر بنی ہوئی ہے۔ جس طرف نظر اٹھائیں
الو ہی الو دکھائی دیتے ہیں۔ کسی کو نہ اس ملک کی فکر ہے اور نہ یہاں رہنے والے
اہل فکر کی، بس جو کچھ بنا سکتے ہیں بنائے جا رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر تو سونے کا
انڈا دینے والی مرغی کے انڈے کی بجائے مرغی ہی کو ذبح کرنے پر تل آئے ہیں۔ لیکن انہیں شاید معلوم نہ ہو کہ انڈا مرغی دیتی
ہے اس سے بٹورا جا سکتا ہے نہ ذبح کر کے اس سےنکالا جا سکتا ہے یہ قانون قدرت
ہے۔ لیکن کچھ الو سارے انڈے ایک ہی بار
صرف اپنے لئے حاصل کرنے کے درپے ہیں اور مرغی کا سر ہی کھانے کو آ گئے ہیں۔
اس وقت بہت سے الو یہ انڈے حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے سے
دست و گریبان ہیں۔ لڑائی اپنے عروج پر ہے ۔ لیکن عجب بات تو یہ بھی ہے کہ مرغی کے
مالکان مرغی کی حفاظت کرنے کی بجائے ان غاصبوں کا ساتھ دے رہے ہیں کچھ ایک الو کے
ساتھ تو کچھ دوسرے اور تیسرے الو کے الو بنے ہوئے ہیں۔ مطلب جہالت کا راج چہار جانب عروج پر ہے اور
طوفان بدتمیزی برپا ہے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ مرغی کو بچانے کیلئے کیا
کرنا ہے ۔ الوؤں کا ساتھ دینا ہے یا کہ خود میدان میں آ کے الوؤں سے جان بھی
چھڑانا ہے اور مرغی کو بھی بچانا ہے۔
میرے یہ چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ شاید بہت سوں کو سمجھ نہ آئے
ہوں جس طرح رہنماؤں کے بھیس میں موجود رہزنوں کی سمجھ نہ آ رہی ہے مگر امید ہے کچھ آگہی کا ادراک ضرور ہوا ہو گا۔ اس
لئے میری اپنے ہم وطنوں سے گزارش ہے خدارا جذبات اور کسی کے بہکاوے میں آنے کی
بجائے خود حالات کا تجزیہ کرنے کی اپنی صلاحیت کو جگائیں۔ کڑیوں سے کڑیاں ملائیں ،
منظر سے ہٹ کر پس منظر کو چانچنے کی کوشش کریں۔
کم از کم اس وطن ، اس دھرتی پر کسی طور مصلحت سے کام نہ لیں۔ اسے بچانے
کیلئے کسی طاقت کو خاطر میں نہ لائیں۔یہ سیاسی ، سماجی، لسانی نظریات پر پھر کبھی
ہم ایک دوسرے سے الجھ لیں گے مگر یہ سرزمین ہی نہ رہی تو پھر ہمارے یہ نظریات کس
طرح سے جانبر ہو سکیں گے۔ نہ ہم خود سر
اٹھا کر جی سکیں گے اور نہ ہماری آنے والی نسلیں خودداری کی زندگی گزار سکیں گی۔
اس جہالت پر تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
0 تبصرے