چشمہ رائٹ بنک کینال کی عدم بحالی، جماعت اسلامی کا احتجاج
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
چشمہ رائٹ بنک کینال گزشتہ سال کے فلیش فلڈز میں ٹوٹ پھوٹ
کا شکار ہو گئی تھی۔ جس کی وجہ سے تحصیل تونسہ کی 2 لاکھ 40 ہزار ایکڑ زرعی اراضی
کو سیراب کرنے کا واحد ذریعہ بند ہو گیا۔ یوں ہنستے بستے ہزاروں گھرانے اپنے
ذریعہء معاش سے محروم ہو گئے۔ اس پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہمارے عوامی نمائندے
اس بارے میں فوری اقدامات کرواتے اور ایک دو ماہ کے اندر اندر یہ نہر مرمت ہو چکی
ہوتی ہے۔ لیکن افسوس باتیں اور دعوے تو بہت کئے گئے مگر ” وہ وعدہ ہی کیا جو وفا
ہو جائے" کے مصداق 7 ماہ گزرنے کے باوجود اب بھی صرف باتیں ہی ہو رہی ہیں۔ گندم
کی فصل اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے بہت ہی کم رقبہ پر کاشت کی گئی۔ گندم کی
فصل مہنگے زرعی مداخل، مہنگے بجلی کے ریٹس، اور پٹرولیم کی آئے روز بڑھتی ہوئی
قیمتوں کے باعث شاید ہی ایسا ہو کے یہ گندم اپنی سپورٹ پرائس سے کم لاگت پر تیار
ہو جائے۔
اب گندم کی فصل تباہ کرنے کے بعد آنے والی کپاس کی فصل کو
بھی تباہ کرکے اہل تونسہ کی معیشت کو ٹھکانے لگانے کی سازش زوروں سے جاری ہے۔ جس
سے بات ہو سوائے باتوں اور طفل تسلیوں کے کچھ سننے کو نہیں ملتا۔ عوام کا درد
پالنے کا دعویٰ کرنے والے بڑے بڑے لیڈروں نے آج تک اس مجرمانہ غفلت کے خلاف کوئی
اقدام کروانا تو دور کی بات عوامی مسائل کے حل کیلئے بطور احتجاج نہ تو کبھی ایک
لفظ کہا نہ کسی احتجاج میں شرکت کی۔ لیکن جب ان کے لیڈر کی گرفتاری کی بات آئی تو
سب سے پہلے ہونے والے احتجاج میں بھاگتے ہوئے پہنچ گئے۔
اس سب کے باوجود چشمہ رائٹ بنک کینال کی بحالی کیلئے عوام
نوحہ کناں ہے اور اس نوحہ خوانی میں جماعت اسلامی نے عوام کو اکیلا نہیں چھوڑا اور
اپنے تئیں ہر محاذ پر ان کے ساتھ ساتھ رہی۔ جماعت اسلامی نے تونسہ ، کھڈ بزدار،
ترمن کے بعد آج ریتڑہ کے مقام پر احتجاجی جلسے کا انعقاد کیا۔ اس احتجاج میں جماعت
اسلامی ضلع ڈیرہ غازیخان کے امیر پروفیسر رشید احمد اختر، امیدوار این اے 189 نعیم
اللہ عاربی، امیدوار حلقہ پی پی 285 عزیزاللہ قیصرانی، معین احمد موسیٰ خیل، صادق
کریم، رفیق احمد وہوچہ، فیض احمد بلوچ، ظفر احمد بلوچ اور دیگر رہنماؤں نے شرکت کی
اور مٹی کا قرض چکانے کی اپنے تئیں بھر پور کوشش کر ڈالی۔
گو کہ جماعت اسلامی نے عوامی مسائل پر ہمیشہ اپنا مثبت
کردار ادا کیا چاہے وہ 2010 کا قیامت خیز سیلاب ہو یا 2022 کے رودکوہی سیلاب ، کسی
نادار اور غریب کی مدد کرنی ہو یا عوامی مسائل پر صدائے احتجاج بلند کرنی ہو جماعت
اسلامی نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے مگر جب سے جماعت اسلامی کے درد دل رکھنے
والے نوجوان رہنما عزیزاللہ قیصرانی نے اس خطے کے مسائل کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا
ہے انتہائی سرعت کے ساتھ متحرک ہو کر سامنے آئے ہیں۔ عزیز اللہ قیصرانی ایک حساس
دل رکھنے والے نوجوان صحافی بھی ہیں یہی وجہ ہے کہ ظلم اور حق تلفی کے خلاف آواز
اٹھانا ان کی تربیت میں شامل ہے۔ جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور لوگوں
کے دکھ درد میں شریک ہونے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ آج کا یہ احتجاج بھی ان کی شاندار
کاوشوں میں شامل ہے۔
جماعت اسلامی کا یہ احتجاج پسے ہوئے اور مظلوم طبقے میں اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے اور حقوق کے حصول کیلئے عملی جدوجہد کرنے کیلئے سنگ میل ثابت ہو گا اور شعور کا یہ سفر بہت جلد کامیابی و کامرانی کی منزلیں طے کرے گا۔ لیکن یاد رہے سر اٹھانے والوں کے سر اگر دار پر چڑھائے جاتے ہیں تو سر اٹھانے والے ہی اپنے وقت کے شاہ بھی کہلائے جاتے ہیں اور انہی کا نام ہی تاریخ میں زندہ رہتا ہے۔ سر اٹھائیں اس سے پہلے کہ کوئی آپ کو کچل کر آگے بڑھ جائے اورپھر آپ کی داستاں بھی نہ رہے داستانوں میں۔
یہ بھی پڑھیں:
جہالت کا ننگا ناچ۔۔۔ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
کیا ایسٹیبلشمنٹ واقعی عمران خان سے ڈری ہوئی ہے؟ تحریر:فاروق شہزاد ملکانی
0 تبصرے