چشمہ رائٹ بنک کینال کی مرمت میں تاخیر، مجرمانہ غفلت کا ذمہ دار کون؟۔۔۔ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

چشمہ رائٹ بنک کینال کی مرمت میں تاخیر، مجرمانہ غفلت کا ذمہ دار کون؟۔۔۔ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

چشمہ رائٹ بنک کینال کی مرمت میں تاخیر، مجرمانہ غفلت کا ذمہ دار کون؟

تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

 

چشمہ رائٹ بنک کینال سرائیکی خطے کے ایک مختصر حصے کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ نہر چشمہ بیراج سے نکل کر ڈیرہ اسماعیل خان کے مختلف علاقوں کو سیراب کرتے ہوئے تونسہ (پنجاب) میں داخل ہوتی ہے اور یہاں کے لاکھوں ایکڑ زرعی رقبے کو سیراب کرتی ہے یوں یہ یہاں کی بڑی آبادی کی روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔

 

چشمہ رائٹ بنک کینال تاریخ اور اہمیت

 

چشمہ رائٹ بنک کینال چشمہ بیراج سے نکلتی ہے۔ چشمہ بیراج کی تعمیر 1967 میں شروع ہوئی اور 1971 میں مکمل ہو گئی۔ چشمہ بیراج کے دونوں کناروں سے اس وقت دو نہریں نکالی گئیں۔ دائیں کنارے سے نکلنے والی نہر کو چشمہ رائٹ بنک کینال کا نام دیا گیا۔

 

چشمہ رائٹ بنک کینال تقریباَ 300 کلومیٹر طویل ہے۔ اس نہر کی تعمیر 1976 میں شروع ہوئی اور یہ تین مراحل میں 2001 میں مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر میں تاخیر اس وقت کی انتظامیہ اور پھر ضیاء حکومت اور اس کے بعد آنے والی حکومتوں  کی مجرمانہ غفلت شامل تھی۔ بھٹو کا تختہ الٹنے کے بعد مسلط مارشل لاء حکومت نے 11 سال اس کے فنڈز روکے رکھے۔ 1988 میں پی پی پی کی حکومت آنے کے بعد اس پر پیش رفت شروع ہوئی مگر بدترین سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے باعث اس کی تعمیر بھی کچھوے کی چال کی طرح رینگتے رینگتے آگے بڑھتی رہی۔ یوں یہ نہر 2001 میں مکمل ہوئی۔

 

چشمہ رائٹ بنک کینال کے منصوبے کے مطابق اس نہر میں تقریبا 4700 کیوسک پانی چھوڑا جانا تھا جس سے کے پی کے اور پنجاب کا 6 لاکھ 6 ہزار ایکڑ رقبہ سیراب ہونا تھا۔ جس میں کے پی کے کا 366000 ایکڑ جبکہ پنجاب کا 240000 ایکڑ رقبہ شامل تھا۔ اس پانی میں 1880 کیوسک حصہ پنجاب کا رکھا گیا تھا۔ لیکن چشمہ نہر کی تکمیل کے بعد تقریباَ 4000 کیوسک پانی چھوڑا گیا جو کہ منصوبے سے 700 کیوسک کم تھا۔ اس لحاظ سے کے پی کے اور پنجاب کے حصے کا پانی کم ہو گیا۔ جس کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ اس کم شدہ پانی میں زیادہ کٹوتی پنجاب کے حصے سے ہوئی۔ یوں پنجاب کو بہت کم پانی دیا جانے لگا جو بعد ازاں کم ہوتے ہوتے چھ سات سو کیوسک تک رہ گیا۔

 

اس تمام تر صورتحال کے باوجود ایک بہت بڑا رقبہ اس سے سیراب ہوتا رہا ہے جو کے پی کے اور پنجاب کے ان علاقوں میں خوشحالی کے ساتھ ساتھ ملکی پیداوار میں بھی اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ چشمہ نہر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں دور دور تک دکھنے والے ریت کے ٹیلے اور بنجر زمینیں اب لہلہاتے کھیتوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ یہاں کا زمیندار اور کسان اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے ساتھ ساتھ خوشحالی کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ اس نہر کی بدولت ہی ہمارا ملک زرعی اجناس میں خودکفیل ہوا بلکہ ایکسپورٹ کرنے کے بھی قابل ہو گیا۔

 

چشمہ نہر کی موجودہ صورتحال اور ابتری


گزشتہ سال (2022) میں جنوبی پنجاب اور دیگر علاقوں میں بارشوں سے پیدا ہونے والی افسوسناک صورتحال سے چشمہ نہر بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ ان فلیش فلڈز سے کے پی کے اور پنجاب میں چشمہ نہر کا بہت بڑا حصہ سرےسے غائب ہی ہو گیا۔ جس سے نہری پانی کی فراہمی مکمل طور پر بند ہو گئی۔

 

یہاں کے مکینوں کو امید تھی کہ بارشوں کا سلسلہ بند ہونے کے بعد اس نہر کی مرمت کا کام تیزی سے شروع کرا دیا جائے گا۔ لیکن انہیں کیا معلوم کہ اس دیس پر بے حس اور موقع پرست ہتھیاروں کا راج ہے جنہیں صرف اپنی تجوریوں اور اولادوں کی فکر ہے انہیں نہ تو غریب عوام سے کوئی ہمدردی ہے اور نہ ہی ملک کی فکرانہیں کرسی کرسی کا کھیل ہی پسند ہے اور وہ اسی میں ہی مگن ہیں۔ حتیٰ کہ آج 7 ماہ گزرنے کے باوجود اندھیرا ہی اندھیرا نظر آ رہا ہے۔ یہاں کے کسان اپنی گندم کی فصل تو گنوا ہی چکے ہیں بلکہ آنے والی کپاس کی فصل بھی خطرات سے دوچار ہو چکی ہے۔

 

مجرمانہ غفلت کا ذمہ دار کون؟

 

چشمہ رائٹ بنک کینال ابھی بھی جوں کی توں پڑی ہوئی ہے۔ کسان اور کاشتکار حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ محکمہ انہار، واپڈا ، وزیر اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سمیت مقامی عوامی نمادگان محو تماشہ ہیں۔ ان میں سے کسی کو اپنی تنخواہوں، کمیشنز، کک بیکس سے مطلب ہے تو کسی کو اپنے ووٹ سے، نہیں ہے تو بس یہاں کی عوام سے، اپنے ووٹر سے اور اس ملک سے کوئی غرض۔

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں سے کسی کو کیا لینا دینا۔

"مائی دا پئے مرے نہ مرے انہیں دے پنج روپے کھرے" 


یہ بھی پڑھیں: لیہ ریتڑہ پل منصوبہ، سڑکوں اور حفاظتی بندوں کی تعمیر میں تاخیر کا ذمہ دار کیوں؟


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے