عوام نہیں صرف شاہی۔۔۔
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
پاکستان میں سیاست
اور جمہوریت قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے ساتھ ہی دم توڑ گئی تھی۔ کبھی دفنا
دی جاتی ہیں اور کبھی قبرکشائی کر کے پوسٹ مارٹم اور انصاف کے حصول کے نام پر
سڑکوں پر رول دی جاتی ہیں۔ پاکستانیوں کو کبھی جمہوریت کے نام پر چونا لگایا جاتا
ہے تو کبھی سیاستدانوں کے نام نہاد کرتوتوں کا سیاپا ڈال کر آمریت کے اندھے کنویں
میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ پھر وہی آمر اپنے من پسند سیاستدانوں کو لے کر جمہوریت
پسندی کی سند لینے کیلئے میدان میں آ جاتا ہے۔ خود بھی بے حساب لوٹتا ہے اور اپنے
ہم پیالہ و ہم نوالہ نام نہاد جمہوری لیڈروں کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی دے دیتا ہے۔ نام
نہاد احتساب کا ڈھول پیٹا جاتا ہے اور چنیدہ احتساب کا ڈول ڈال دیا جاتا ہے۔ عوام
سے واہ واہ کے ڈونگرے برسوا کر رات گئی بات گئی کے مصداق جو چھتری تلے آ جائے اسے
نوازنے اور جو نہ آئے اسے نشان عبرت بنانے کا کھیل جاری رہتا ہے۔
یہی کچھ پہلے بھی
ہوتا آیا ہے آج بھی ہو رہا ہے۔ پہلے بھی وہ نادیدہ قوتیں صرف سیاستدانوں کو
استعمال کرتی تھیں اور ونڈ کے کھاتی تھیں اب بھی ونڈ ونڈ کے کھنڈ کھا رہی ہیں۔
لیکن عام عوام کے بارے میں نہ کبھی پہلے سوچا جاتا تھا نہ اب سوچا جا رہا ہے۔ ایک
عام چپڑاسی سے لے کر بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے گدھ عوام اور ملک عزیز کو نوچ رہے
ہیں۔ صرف وہی شریف ہے جس کے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ یعنی وہ اندھا، گونگا ، بہرا،
لنگڑا ہے حتیٰ کہ ہاتھوں سے بھی محروم ہے۔ کیونکہ بددیانتی صرف روپے اور پیسے کی
ہی نہیں ہوتی دیکھنے، بولنے، سننے، چلنے اور کام کرنے میں بھی بددیانتی کا عنصر
موجود ہو سکتا ہے۔ ہم پاکستانی من حیث القوم ایک گندگی کا حصہ بن چکے ہیں اور صرف
اتنا ہی نہیں ہم اس گندگی کا حصہ ہونے پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔
پاکستان اور پاکستانی معاشرے کی ابتری کے ذمہ دار کون؟
اس وقت پاکستان کے جو بھی حالات ہیں اس کے ذمہ
دار ہم بحیثیت قوم سب ہیں۔ ہاں البتہ کچھ لوگ جن کے پاس اختیارات ہیں وہ زیادہ ذمہ
دار ہیں اور کچھ لوگ جن کے پاس اختیارات نہیں وہ کم ذمہ دار ہیں۔ جس طرح ہم اپنے
استطاعت کے مطابق بددیانت ہیں اسی طرح اپنی استطاعت کے مطابق پاکستان اور پاکستانی
معاشرے کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے
کہ ایسا کیوں ہے؟ سب لوگ ہی اس کے ذمہ دار کیسے ہو سکتے ہیں۔ تو اس کا سادا سا
جواب یہ ہے کہ جن کو ہم سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ان کیلئے زندہ باد اور مردہ باد
کے نعرے لگاتے ہیں۔ ان کی بدعنوانیوں کی پردہ پوشی کرتے ہیں کیا ہمیں نہیں معلوم
ہوتا کہ یہ کرپٹ انسان ہے، یہ کیسے اربوں کھربوں کا مالک بنا ہے۔ کل تک والی بال
اور کرکٹ کے میچوں پر جواء کھیلنے والے سڑک چھاپ آج اربوں کھربوں کا مالک کیسے بنے
ہیں۔ گیس اور بجلی کے میٹر لگوا کر دینے
والے، صرف چند سو کی رشوت وصول کر کے بانٹنے والے آج لینڈکروزرز پر کیسے گھومتے
ہیں۔ چندہ لے کر بیٹ بال خریدنے والے آج کیسے انسانوں کی بولیاں لگا رہے ہیں۔ ہم
میں سے تقریباَ ہر بندہ یہ کہتا تو نظر آتا ہے کہ سیاست میں بہت گند ہے سارے کرپٹ
ہیں مگر عملی طور پر ان سے جان چھڑانے کی باری آتی ہے تو ہر کوئی ان کیلئے زندہ
باد کے نعرے لگاتا پھرتا ہے۔ اسی طرح ہر کوئی یہ بھی کہتا پھرتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ والے
بڑے کرپٹ ہیں ریٹائر ہو کر پاکستان میں رہنا بھی پسند نہیں کرتے باہر جزیرے اور
کمپنیاں خرید لیتے ہیں۔ اسی طرح عدلیہ اور بیوروکریسی کے بارے میں بھی یہی کہا
جاتا ہے۔ نجی محفلوں میں بڑھ چڑھ کر باتیں کی جاتی ہیں بلکہ ان محافل میں تو ہر
شعبہ ہائے زندگی کے نمائندے خود بھی اس بات کا اقرار کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کے
شعبے میں بہت کرپشن ہے۔ اس پر افسوس بھی کرتے ہیں مگر اس کے خاتمے کیلئے آواز
اٹھانے کیلئے کوئی تیار نہیں ہوتا۔
پاکستان ان حالات تک کیسے پہنچا؟
پاکستان ان حالات تک
درج ذیل وجوہات کے باعث پہنچا ہے۔
1۔ سیاستدانوں کی ترجیح
عوام نہیں
2۔ عدلیہ کی ترجیح
انصاف نہیں
3۔ صحافیوں کی ترجیح
صحافت نہیں
4۔ محافظوں کی ترجیح
حفاظت نہیں
5۔ خادموں کی ترجیح
خدمت نہیں
6۔ عوام کی ترجیح خود
عوام نہیں
سیاستدانوں کی ترجیح عوام نہیں
سیاستدان چونکہ اپنے
اقتدار اور اختیار کیلئے عوام کے محتاج ہیں تو ان کی سب سے پہلی ترجیح عوام کو
ہونا چاہئے۔ مگر بدقسمتی دیکھئے کہ ان کی پہلی ترجیح عوام نہیں بلکہ اگر میں یہ
کہوں کہ آخری ترجیح بھی عوام نہیں تو غلط نہ ہو گا۔
ایک چھوٹا سا واقعہ
آپ کو سناتا چلوں کہ ہمارے علاقے میں گذشتہ روز ایک لیڈر کیلئے احتجاج کیا گیا اس
میں ایسے ایسے مقامی سیاسی رہنما بھی شریک تھے جنہوں نے کسی عوامی مسئلے پر ایسے
عوامی احتجاج میں شرکت نہیں کی۔ گزشتہ 4 سال ان کی حکومت رہی لوگ اپنے حقوق کیلئے
احتجاج کر کر کے تھک گئے مگر یہ رہنما احتجاج میں شریک ہوئے نہ ان کے مسائل حل
کروائے صرف لہو لگا کے شہیدوں میں اپنا نام لکھواتے رہے۔ لیکن اب الیکشن آیا ہے تو
سارے لیڈروں کو عوام کی اور پارٹی کارکنوں کی یاد آئی اور شرکت کی بھی تو ایسے
احتجاج کیلئے جو عوام کیلئے نہیں ایک لیڈر کیلئے کیا جا رہا تھا اور لیڈر بھی ایسا
جو عوام کی طرف نہیں اوپر والوں کی طرف زیادہ دیکھتا ہے اسے جائز ناجائز امپائر کی
انگلی کھڑی چاہئے۔ ٹھیک اسی جگہ پر مہنگائی اور ناانصافی کیلئے درجنوں احتجاج میں
خود دیکھ چکا ہوں لیکن ان لیڈروں میں سے کوئی بھی اس میں شریک نہ ہوا۔
عدلیہ کی ترجیح انصاف نہیں
اب عدلیہ کو ہی دیکھ
لیں کیا کسی کو ایسا لگتا ہے کہ یہ عام لوگوں کو انصاف فراہم کر رہی ہیں۔ عام
لوگوں کے کیسز دہائیوں سے سردخانوں کی نظر ہو چکے ہیں لیکن بااثر لوگوں کو نوازنے
کیلئے منٹوں میں عدالتیں لگ بھی جاتی ہیں اور انصاف بھی فراہم کر دیا جاتا ہے اب
اسے انصاف کہنا صحیح بھی ہے کہ نہیں لیکن مجبوری ہے کہ ان کے فیصلوں کو انصاف کا
نام دیا جائے باقی ان کے کسی فیصلے سے ایسا نہیں لگتا کہ انہوں نے یہ فیصلہ انصاف
کے تقاضوں پر دیا ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ان کا انصاف بھی شکلیں دیکھ کر رنگ
پکڑتا ہے ورنہ تو یہ بلیک اینڈ وائٹ ہی پڑا رہتا ہے۔
صحافیوں کی ترجیح صحافت نہیں
اب آتا ہوں میں اپنے
شعبے یعنی صحافت کی طرف یہاں بھی سب کچھ نظر آتا ہے مگر صحافت کسی قبرستان میں دفن
نظر آتی ہے۔ عوام کو سچ دکھانے کی بجائے
من پسند سچ دکھایا جاتا ہے۔ پوری بات بتانے کی بجائے ادھورا سچ بتایا جاتا
ہے اور اس پر جھوٹ کی ملمع کاری بھی دیدہ دلیری کے ساتھ کی جاتی ہے۔ ہر کسی نے
اپنی جماعتیں اور اپنے ادارے بانٹے ہوئے ہیں۔ وہ اس کیلئے ادھورے سچ کے ساتھ ساتھ
پروپیگنڈا اور جھوٹ بھی پھیلاتا ہے۔ من گھڑت خبریں ، واقعات، حتیٰ کہ اب تو ترمیم
شدہ تصاویر اور ویڈیوز بھی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پھیلائی جاتی ہیں۔
بہت سے صحافی تو
پارٹیوں اور ایجنسیوں سے اپنے تعلق کو باعث فخر سمجھتے ہیں اور اس کا برملا اظہار
بھی کرتے ہیں۔ انہی کے کہنے پر کسی کو ایماندار لیڈر اور کسی کو کرپٹ اور بدکردار
گردانتے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر اداروں کی طرح صحافت بھی اپنی آخری
سانسیں لیتی نظر آتی ہے۔
محافظوں کی ترجیح حفاظت نہیں
ہمارے محافظوں کی
ترجیح بھی اب صرف حفاظت نہیں رہی۔ وہ بھی اقتدار اور اختیارات میں اپنا حصہ سب سے
زیادہ وصول کرتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں ایک پارٹی کو ہٹا کر دوسری اور پھر تیسری پارٹی
کو اقتدار میں لے آتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت طاقت اور اقتدار کا منبع یہی محافظ
ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے سے بڑے عوامی لیڈر بات تو ووٹ کی کرتے ہیں مگر اپنے آپ کو
اقتدار میں لانے کیلئے صرف ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ عوام کو پہلی
ترجیح نہ بنانے میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں علم ہے کہ انہیں جتانا اور اقتدار
میں لانا عوام کے بس کی بات نہیں۔ ڈنڈا ہی وہ سارے کام کر سکتا ہے جو ووٹ نہیں کر
سکتا۔
خادموں کی ترجیح خدمت نہیں
سول بیوروکریسی جو
کسی بھی نظام حکومت میں خادم کا کردار ادا کرتی ہے ان کی پہلی ترجیح خدمت بالکل
بھی نہیں۔ یہ لوگ صرف اپنی اور اپنے خاندانوں کی خوشحالی اور عیاشیوں کیلئے کام
کرتے ہیں۔ حکومت اور اہل اقتدار انہیں عوام کو ڈنڈا دینے کیلئے استعمال کرتے ہیں
اور یہ خوشی سے اس ڈنڈے کا استعمال کرتے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں پر گھومتے ہیں عوام
کے پیسے پر عیاشی کرتے ہیں پھر بھی ان کے کوئی بھی اقدام عوام کیلئے نہیں اشرافیہ
کی خوشنودی کیلئے ہوتے ہیں۔
عوام کی ترجیح خود عوام نہیں
آخر میں پہلی اور
آخری بات کہ عوام خود اپنے لئے نہ تو کام کرتی ہے اور نہ ہی اپنے ساتھ مخلص ہے۔
عوام کا ہر اٹھایا گیا قدم اپنے ہی خلاف ہوتا ہے یعنی یہ اپنے ڈسنے والے کو دودھ
پلاتے ہیں۔ درخت کی طرح کاٹنے والے کو اپنی چھاؤں میں بٹھاتے ہیں۔ انہی لیڈروں کو
ووٹ دیتے وقت زندہ باد کے نعرے لگا کر جتاتے ہیں اور جتانے کے بعد خود ہی اپنے
کاموں کیلئے خوار ہوتے پھرتے ہیں۔ کسی کیلئے کسی کو غدار، ملک دشمن اور عوام دشمن
تک قرار دیتے ہیں۔
پیارے بھائیو! تھوڑے
کو بہت جانیں اپ دودھ پیتے بچے تو نہیں ہیں کہ اتنا سمجھ نہیں پاتے خبر تو آپ کو
سب ہے مگر عمل کرتے وقت اپنے عقل کا استعمال ترک کر دیتے ہیں۔ جس کا فائدہ یہ سارے
نوسرباز اٹھاتے ہیں اور آپ لوگوں کو سبز باغ دکھا کر اپنے لئے استعمال کرتے ہیں۔
اب یہ آپ پر ہے کہ کسی کیلئے استعمال ہونا ہے یا اپنی قسمت سدھارنے کیلئے کام کرنا
ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
خدا کے بندوں کو جینے
دو۔۔۔ تحریر : فاروق شہزاد ملکانی
پاکستان، قائداعظم کی
میراث۔۔۔ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
0 تبصرے