زمزم کی تاریخ، فضیلت اور آب زمزم کا کیمیائی تجزیہ

زمزم کی تاریخ، فضیلت اور آب زمزم کا کیمیائی تجزیہ


زمزم کی تاریخ، فضیلت اور آب زمزم کا کیمیائی تجزیہ


"سورۃالبلد" میں ارشاد ربانی ہے " میں اس شہر مکہ کی قسم کھاتا ہوں"  پھر "سورۃ التین "میں ہے "انجیر کی قسم اور زیتون کی قسم اور سینا کے پہاڑ طور کی قسم اور اس امن والے شہر مکہ کی قسم"  اللہ تعالی نے قرآن مجید میں دو مرتبہ مکہ کی قسم کھائی ہے۔ اس بابرکت حرمت والے شہر کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ تقریبا دو ہزار سال قبل اللہ نے اپنے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کوحکم دیا کہ وہ اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے شیر خوار بیٹے اسماعیل علیہ السّلام کو اس غیر آباد جگہ پر چھوڑ آئیں جہاں آج حرم مکہ ہے ۔ حضرت ابراہیم پانی اور کھجوروں پرمشتمل کھانے پینے کی اشیاء دے کر واپس ملک شام چلے گئے ۔ جب آپ روانہ ہونے لگے تو حضرت ہاجرہ نے پوچھا کہ آپ ہمیں اس بیابان میں تنہا اور کس کے سہارے چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام خود بھی اس حکم خداوندی کے پس منظر سے واقف نہ تھے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا "اللہ"  اس پر حضرت ہاجرہ نے کہا کہ اللہ یقینا ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ بعض مورخین لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جس اونٹ پر حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل ؑ کو چھوڑنے کیلئے آئے تھے وہ  اونٹ اس مقام پر آکر بیٹھ گیا تھا۔ جس سے آپ سمجھ گئے کہ اللہ کی یہی مرضی ہے۔ چنانچہ آپ ایک چھوٹے سے ٹیلے پر انہیں چھوڑ کر واپس روانہ ہو گئے۔ حضرت ہاجرہ اسی مقام پر مقیم رہیں ۔ پھر چند دنوں کے بعد کھانے پینے کا سامان ختم ہو گیا تو حضرت ہاجرہ کی پریشانی بڑھی۔ حضرت اسماعیل علیہ السّلام بھی بھوک پیاس سے بیتاب نظر آنے لگے۔ حضرت ہاجرہ پہلے صفا پہاڑی پر چڑ ھیں کہ کہیں پانی نظر آجائے کچھ نظر نہ آیا تو مروہ پہاڑی کی جانب روانہ ہوئیں ۔ اسی پریشانی کی حالت میں اسی انداز میں دو مقامات کے چکر لگاتی رہیں کہ بچے کی بھوک پیاس مٹانے کیلئے کچھ بندوبست ہو جائے۔ وہ مروہ پہاڑی پر تھیں کہ انہیں ایک گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دی۔ وہ بے تابی سے اپنے بچے کی طرف بھاگیں ۔ آکر دیکھاتو وہ جگہ جہاں حضرت اسماعیل علیہ السّلام لیٹے ہوئے تھے اور اپنی ایڑیاں رگڑ رہے تھے وہاں اللہ کے حکم سے چشمہ جاری ہو گیا ہے۔ حضرت ہاجرہ نے اپنے بچے کو پانی پیلا یا اور خود بھی پیا۔ پھر اس پانی کو آئندہ کیلئے محفوظ کرنے کی تدابیر کرنے لگیں اور پانی کے گرد منڈیر بنادی۔ پانی اس منڈیر سے بھی نکلتا نظر آیا تو آپ کے منہ سے نکلا زم زم ( ٹھہر ٹھہر ) اور پھر پانی پر سکون ہو گیا۔ حضرت عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ اسماعیل علیہ السّلام کی والدہ (ہاجرہ) پر رحمت نازل فرمائے اگر وہ زم زم کو بہنے دیتیں تو یہ چشمہ قیامت تک بہتا رہتا۔

 

 اس زمانے میں آبادی اس مقام پر ہوا کرتی تھی جہاں پانی ہوتا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد یمن کا ایک قبیلہ جرہم وہاں سے گزرا کر پانی دیکھا تو حضرت ہاجرہ کی اجازت سے مستقل قیام کا فیصلہ کر لیا۔ بعض مورخ لکھتے ہیں کہ یہ قبیلہ پہلے بھی وہاں سے گزرا کرتا تھا۔ لیکن وہاں کئی چشمہ یاپانی نہ تھا اس مرتبہ گزرا تو چشمے کے اوپر کچھ پرندے اڑتے دیکھے۔ وہاں آکر دیکھا تو حضرت ہاجرہ اور کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السّلام موجود تھے۔ اہل قافلہ نے قیام کی اجازت مانگی۔ قیام کیلئے یہ شرائط طے پائیں کہ چشمہ زم زم حضرت ہاجرہ کی ملکیت ہی تصور ہوگا۔ قبیلہ جرہم حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے کی بے حد عزت و تکریم کرتے تھے۔ جب حضرت اسماعیل علیہ السّلام جوان ہوئے تو اس قبیلے کے سردار کی صاحبزادی سے ان کا نکاح بھی ہوا۔

 

 بنو جر ہم رفتہ رفتہ یمن سے ترک وطن کر کے مکہ میں مستقل آباد ہوتے رہے اور مکہ نے بہت کم عرصےمیں ایک بستی کی شکل اختیار کر لی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے 137 سال عمرپائی اور پھر مقام حجر (حطیم) میں والدہ کے قریب مدفون ہوئے۔ آپ کے 12صاحبزادے تھے جن میں سے نابت اور قیدار مکہ کے سردار بھی رہے۔ لیکن بعد ازاں یہ اقتدار بنو جرہم کو منتقل ہوگیا۔ بنو جرہم نے حضرت اساعیل علیہ السلام کی اولاد کے ساتھ خونی رشتے کی وجہ سے ہمیشہ اچھا سلوک کیا۔ تاہم اقتدارمیں انکا کوئی حصہ نہ تھا۔ بنوجرہم تقر یباََدو ہزار سال تک اس علاقے کے حاکم رہے۔ معاشی طور پر خوشحالی سے ان کے اندر ظلم و جبر کی عادات پیدا ہونے لگیں ۔ ان کے ظلم وستم کا نشانہ زائرین بیت اللہ بھی بننے لگے۔ وہ زائرین کا مال اسباب لوٹ لیتے تھے۔ قبیلہ بنوخزاعہ نے اس صورتحال کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور نوجر ہم کو مکہ سے نکال دیا۔ بنو جرہم نے مکہ چھوڑتے وقت چاہ زمزم کو بند کر دیا اور شاید واپسی کی امید پر سونے سے بنے ہرن ، تلواریں اور زر ہیں اسی میں دفن کر دیں۔ بنوخزاعہ میں بتوں کو پوجنا عام تھا۔ آخر حالات تبدیل ہوئے اور اقتدار ایک مرتبہ پھر اولا دا سماعیل ؑ ملانا کو منتقل ہو گیا۔ اور پھر حضرت عبدالمطلب کا دور آیا۔ حضرت علی سے روایت ہے کہ عبدالمطلب خانہ کعبہ کے قریب سور ہے تھے تو انہیں خواب میں کہا گیا کہ" کھو دو "یہی حکم تین مرتبہ دیا گیا اور پھر آپ پر واضح کیا گیا کہ یہ وہ کنواں ہے جس کا پانی قیامت تک ختم نہیں ہوگا ۔ یہ کنواں گو برادر خون کے درمیان اس جگہ واقع ہے جہاں چیونٹیوں کا بل ہے اور کوئے اپنی چونچ مارتے ہیں۔ ابن اسحاق کے مطابق حضرت عبدالمطلب کو صیح مقام کا اندازہ ہو گیا تو انہوں نے اس وقت اپنے واحد بیٹے حارث کے ساتھ مل کر اس مقام کی کھدائی شروع کر دی ۔ جب اس کنویں میں سے وہ اشیاء نکلنا شروع ہوگئیں جو بنو جرہم جلا وطن ہوتے وقت وہاں دفن کر گئے تھے تو قریش بھی دعویدار بن گئے کہ یہ ہمارے باپ اسماعیل کا کنواں ہے۔ اس پر ہمارا بھی حق ہے۔ ہمیں بھی شریک کیا جائے۔اس پر کافی جھگڑا ہوا۔ آخر انہوں نے حضرت عبدالمطلب کا حق تسلیم کر لیا۔ جب کھدائی جاری تھی تو اس سے سونے کے دو ہرن سفید تلوار یں اور زر ہیں نکلیں جو تیروں کے ذریعے قرعہ اندازی کے بعد متفقہ طور پر خانہ کعبہ کی ملکیت قرار دی گئیں ۔ ابتداء میں چاہ زمزم کے قریب دو حوض تعمیر کئے گئے ۔ ایک پانی پینے کیلئے اور دوسرا وضو کیلئے لیکن غسل منع کر دیا گیا۔ حضرت عبدالمطلب کا کہنا تھا کہ غسل اس لئے مناسب نہیں کہ غسل کے پانی سے حرم کا علاقہ نا پاک ہوگا۔ اس طرح پانی پلانے اور سبیل کا انتظام ساری زندگی عبدالمطلب کے پاس رہا۔ ان کے بعد حضرت ابو طالب کے پاس یہ ذمہ داری رہی ۔ اپنی غربت اور انتظام نہ کر پانے کے باعث حضرت ابوطالب نے یہ ذمہ داری حضرت عباس کو سونپ دی۔ حضرت عباس کی وفات 32ہجری میں ہوئی تو ذمہ داری حضرت عبداللہ بن عباس کے پاس آئی پھر ان کے بیٹے علی بن عبداللہ اور بعد ازاں داؤد بن علی الا سلیمان بن علی اور اس کے بعد یہ ذمہ داری خلیفہ وقت کے پاس چلی گئی۔

 

زمزم بارے احادیث

 

مسلم شریف میں حضرت ابوذر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایازم زم کا پان کھانے کا قائم مقام ہے اور پیاری کی دوا ہے۔ امام احمد جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ زمزم کا پانی جس غرض سے پیا جائے مفید ہے۔ امام ابن ماجہ باب الشرب من زمزم میں اور حاکم نے ابن عباس سے بیان کیا ہے کہ اس نے کسی آدمی سے کہا کہ جب تو زمزم کا پانی پئے تو کعبہ کی جانب رخ ہو۔ اللہ کا نام لے اور تین سانس لے اور خوب پیٹ بھر کر پی۔  بعد ازاں الحمد للہ کہا جائے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ ہمارا اور منافقوں کا امتیازی نشان یہ ہے کہ وہ پیٹ بھر کر زمزم نہیں پیتے۔ ارشاد نبوی ہےکہ دنیا میں بہترین پانی ملزم ہے۔ یہ پانی جس نیت سے پیا جائے اللہ اسے پورا کرے گا۔ زم زم پیٹ بھرنے والی غذا ہے اور بیمارکیلئے شفا ہے۔ جہنم کی آگ اور زم زم کا پانی دونوں انسان کے پیٹ میں جمع نہیں ہو سکتے۔ (عام طور پر پانی کو بیٹھ کر پینے کا حکم ہے لیکن زم زم کیلئے قبلہ ر وکھڑے ہو کر پینے کا حکم ہے )

 

ماضی قریب تک چاہ زمزم سے ڈول کے ذریعے پانی نکالا جاتا تھا۔ کنویں کے گرد آہنی جنگلہ تھا جو مکہ کے عجائب گھر میں اب تک محفوظ ہے ۔ 1953ء میں اس کنویں سے پانی نکالنے کیلئے جدید مشینی نظام نصب کیا گیا۔ چاہ ز مزم کا خانہ کعبہ سے فاصلہ 21میٹر ہے۔ زمزم کا چشمہ کئی  چشموں سے ملکر بنا ہے۔ مکہ کے عجائب گھر میں لگی ایک تصویر کے مطابق چشمہ زمزم کی ایک شاخ حجر اسود کی طرف سے آرہی ہے۔  دوسری شاخ اس جگہ سے آرہی ہے جہاں سے اذان دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی چھوٹے چھوٹے چشمے اس میں شامل ہوتے ہیں ان میں صفا اور مروہ سے آنے والے چشمے بھی شامل ہیں۔ چاہ  زمزم سے فی گھنٹہ تقریبا 40  ہزار لیٹر پانی ابل کر نکلتا ہے۔ مطاف میں چاہ زمزم پر بنی عمارت کو اس لئے گرایا گیا کہ طواف میں یہ عمارت حائل ہو رہی تھی اس کی جگہ خواتین اور مردوں کیلئے علیحدہ علیحدہ تہ خانے بنائے گئے۔ جس میں مردوں کیلئے 220ٹونٹیاں اور خواتین کیلئے 130ٹونٹیاں لگائی گئیں۔ بعد ازاں ابھی چند سال قبل مطاف کی مزید وسعت کیلئے یہ تہہ خانے بھی بند کر دئے گئے اور مسعٰ (سعی والی جگہ کی جانب ترکی حرم میں ٹونٹیاں لگادی گئیں ۔ مسجد حرام سے چند کلو میٹر دور محلہ کدی میں تقریبا 20 سال قبل ایک ٹینکی بنائی گئی۔ جہاں زمزم کنویں کے پانی کومحفوظ کیا جاتا ہے اس ٹینکی میں 1500مکعب فٹ پانی کی گنجائش ہے۔

 

چاہ زمزم کی عمر تقریباََ پانچ  ہزار سال ہے۔ اس طرح یہ روئے زمین پر دنیا کا قدیم ترین کنواں ہے ۔ بہاولپور پاکستان کے ایک زائر سعید احمد اپنے سفر نامہ "عقیدتوں کے سفر" میں رقمطراز ہیں کہ شاہ فیصل کے دور میں بعض غیر ملکی ڈاکٹروں نے دعوی کیا کہ آب زم زم مضر صحت ہے۔ جس پر شاہ فیصل نے ملکی وغیر ملکی لیبارٹریوں سے تجزیہ کرایا اور جور پورٹ مرتب کی گئی اس کے مطابق زم زم اور مکہ کے دوسرے کنوؤں کے پانی میں نمایاں فرق پایا گیا۔ دوسرے کنوؤں میں نباتاتی اور حیاتیاتی افزائش ہوتی رہتی ہے۔ انواع واقسام کی جڑی بوٹیاں پودے اور حشرات الارض پیدا ہو جاتے ہیں۔ کائی جم جاتی ہے جس سے پانی کا ذائقہ بدل جاتا ہے اور رنگت بھی تبدیل ہو جاتی ہے لیکن زم زم دنیا کا واحد پانی ہے جو ہر قسم کی نباتاتی افزائش سے پاک رہتا ہے۔ شاہ مصباح الدین شکیل اپنی کتاب "سیرت النبی البم میں لکھتے ہیں ۹۰۹ء میں چاہ زم زم کا پانی اس قدر بڑھ گیا کہ کنویں سے چھلک کر بہہ نکلا ۔ تاہم اب اس کی سطح 17 گز پر ہے۔ پانی کسی قدر نمکین ہے۔ کچھ کچھ چکناہٹ بھی پائی جاتی ہے۔ ذائقہ خوشگوار ہے اور قدرتی طور پر ہر قسم کے جراثیم سے پاک اور انسانی صحت کیلئے مفید ہے۔

 

ادائیگی عمرہ میں طواف مکمل ہو جائے تو دورکعت نماز واجب الطواف ادا کرنے کے بعد آب زم زم پینا مستحب ہے۔ زمزم پینے کا طریقہ اس طرح بتایا گیاہے کہ بیت اللہ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوں بسم اللہ پڑھ کر خوب پیٹ بھر کر کم از کم تین سانس میں پیا جائے۔ ہر مرتبہ نگاہ کو بیت اللہ کی طرف اٹھایا جائے۔ شروع میں بسم اللہ اور آخر میں الحمد للہ کہا جائے۔ اپنے اوپر بھی زم زم کا پانی ڈالا جائے۔ اللہ تعالی جس شخص کوحج وعمرہ کی توفیق عطا فرمائے وہ اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھائے اور اس متبرک پانی کو خوب پیٹ بھر کر پئے۔ جتنا عرصہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ (مدینہ  میں بھی حکومت کی جانب سے مسجد نبوی میں زمزم فراہم کیا جاتا ہے) میں رہیں زیادہ سے زیادہ زمزم پئیں اور یہ دعا مانگیں ۔ (ترجمہ) اے اللہ میں تجھ سے نفع دینے والاعلم اور فراخ و کشادہ رزق اور نیک عمل اور ہر بیماری سے شفاطلب کرتا ہوں۔


یہ بھی پڑھیں: مقام ابراہیم ، حجر اسود اور ملتزم – خانہ کعبہ کی تاریخ

 

زمزم کا کیمیائی تجزیہ

 

اس سائنسی اور تکنیکی دور میں آب زمزم کا کیمیائی تحلیل و تجزیہ کرنے پر اسے گونا گوں فوائدو خواص کا حامل اور حسب ذیل معدنی اجزاء کا مرکب پایا گیا۔ ان اجزاء میں درج ذیل خواص پائے جاتے ہیں۔

 

1۔  میگنیشیم سلفیٹ:


اس کا استعمال اعضاء کی حرارت کو دور کرتا ہے، قے متلی اور دوران سر کے لئے بے حد مفید ہے۔ دست آور ہوتا ہے اور استسقاءکیلئے بڑا نفع بخش ہے۔انسانی  جسم کے بلغمی مادوں کو ختم کر کے مضر اجزاء کی بیخ کنی کرتا ہے۔

 

2۔ سوڈیم سلفیٹ:

 

یہ ایک قسم کا نمک ہے جو قبض کو رفع کرتا ہے۔ وجع المفاصل کیلئے بے حد مفید ہے۔ ذیا بیٹس ، خونی پیچش ، پتھری اور استسقاء کے مریضوں کیلئے بھی انتہائی مفید ہے۔

 

3۔ سوڈیم کلورائڈ:

 

سوڈیم کلورائیڈایک نمک ہے یہ انسانی خون کیلئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ نظام تنفس کی صفائی اور نظام جسمانی کو برقرار رکھنےکیلئے استعمال کرایا جاتا ہے۔ آنتوں اور پیٹ کے مسلسل درد اور ہیضے میں زود اثر سمجھا جاتا ہے اور زہر کی متعدد اقسام کیلئے بہترین تریاق ہے۔ خصوصا کوئلے کے دھوئیں کی زہریلی گیس ( کاربن مانو آکسائڈ) کے اثرات اس کے استعمال سے فورار در ہو جاتے ہیں اور یہ نمک اعضاء کی کمزوری کو بھی دور کرتا ہے۔

 

4۔ کیلشیم کاربونیٹ

 

 خوراک کو ہضم کرنے ، پتھری توڑنے اور وجع المفاصل کیلئے مفید ہے۔  اعضاء  کی حدت اور لو کا اثر زائل کرنے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

 

5۔ پوٹاشیم نائٹریٹ:

 

تھکن اور لو کے اثرات کو زائل کرتا ہے۔ پیشاب آور ہے۔ دمہ کے لئے بھی مفید ہے۔ پسینہ بکثرت لاتا ہے۔ زمزم کے پانی کوٹھنڈار کھنے میں پوٹاشیم نائٹریٹ کا بڑا حصہ ہے۔

 

6۔ ہائیڈ روجن سلفائڈ :

 

تمام جلدی امراض خصوصاخنازیر کیلئے نفع بخش سمجھا جاتا ہے۔ شدید زکام میں اس کے استعمال سے راحت محسوس ہوتی ہے۔ جراثیم کش ہے۔ اس لئے اس کے استعمال سے ہیضے کے جراثیم ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ قوت ہاضمہ قوت حافظہ اور دیگر دماغی قوتوں کو تقویت پہنچاتا ہے۔ بھوک بڑھاتا اور بواسیر کیلئے بھی اکسیر ثابت ہوا ہے۔


یہ بھی پڑھیں: خانہ کعبہ تاریخ کے آئینے میں

  

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے