عصر حاضر میں اردو کا موقف اور اس کاحل
تحریر: تبسم آراء ( پی ایچ ڈی اسکالر عثمانیہ یونیورسٹی)
اُردو سے میری صبح ہے
اُردو سے شام ہے
اُردو کی میں سپاہی ہوں اُردو ہی میرا کام ہے
تہذیب ہے مٹھاس ہے
اُردو زبان میں
اُردو کے چاہنے والوں
کو میر اسلام ہے
اُردو تر کی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی لشکر ،
سپاہی کیمپ وغیرہ کے ہیں اور ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی امین ہے ۔ اُردو
ہندوستان کی وہ شیریں زبان ہے۔ جوسنسکرت اور ہندی کی طرح ہی اس ملک میں پیدا ہوئی اور
پروان چڑھی۔
ہندوستان میں اُردو کی
موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک میں آزادی سے قبل ہی
اُردو کی بقاء کے لئے تحریکیں ہوتی رھیں اور اس زبان کی شیرینی سے کون واقف نہیں ،
لطافت اور دلکشی اس زبان کی مشترکہ کلچر
culture کی ضامن ہے ۔ اور آزادی کی جدوجہد میں اس نے اہم رول ادا کیا۔یہ
زبان مذہب وملت، رنگ ونسل اور ذات پات کی
قید سے آزاد ہے۔ اُردو زبان کی اہمیت پر تبصرہ کرتے ہوئے ہندوستان کے وزیراعظم
پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ" اردو ایک فعال
زبان ہے اور زندگی پر اثر انداز ہونے والی زبان ہے"۔
دنیا کی 30 مقبول ترین
اور سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں سے اُردو زبان کو 9واں مقام حاصل ہے ۔
اس زبان کی شگفتگی و شائستگی اور سادے پن کے سبب دنیا کے بیشتر ممالک میں بولی اور
سمجھی جاتی ہے ۔ چنانچہ زبان وادب کا ذوق رکھنے والا اُردو ادب کے میدان میں الفاظ
کا حسین جامہ پہناتا ہے اور نظم و نثر کی شکل میں غزل ، رباعی، داستان ، افسانہ، ناول اور انشاء پردازی وغیرہ
کی شکل میں اہل فن ادب میں اپنے جوہر دکھاتے ہیں
۔ مولانا الطاف حسین حالی کا یہ شعر ہے۔
شہد و شکر سے شیریں ہے
اُردو زبان ہماری
ہوتی ہے جس کے بول میٹھی زبان ہماری
اُردو زبان کی بقاء اور
فروغ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ اور اس ذمہ داری کی شروعات بلا تفریق مذہب و ملت،
رنگ ونسل اپنے اپنے گھروں سے ہی کی جاسکتی
ہے۔ اس کی تہذیب و ترقی اس وقت ممکن ہےجب اُردو زبان کونئی نسل میں منتقل کرنے کا
سلسلہ جاری رکھا جائے۔
آج بے شمار لوگ اُردو سے متعلق یہ بات کہتے ہیں کہ
اُردو روز گار سے جڑی ہوئی زبان نہیں ہے اور اُردو سے تعلیم حاصل کرنے والوں کا
مستقبل روشن نہیں ہے۔ لیکن یہ خیال غلط ہے ۔ ہندوستان کا سب سے اعلی کیر ئیر سول سروس (Civil Service )کا
ہے ۔ سول سروس کا امتحان پاس کر کے سیول سرونٹ کا عہدہ پانے والے افراد کے ہاتھ اس
ملک کی باگ ڈور ہوتی ہے۔ اُردو زبان میں اس امتحان کے لکھنے والوں کو یہ سہولت
مہیا ہے۔ ہندوستان میں بولی جانے والی 652 زبانوں میں 22 زبانوں کو ہر سہولت حاصل
ہے۔ جن میں اُردو زبان کا بھی شمار ہوتا ہے اس کا مطلب اُردو زبان سے تعلیم حاصل
کرنے والا طالب علم ہندوستان کے سب سے
اعلیٰ مقابلہ جاتی امتحان میں شریک ہو سکتا ہے۔ اور کامیابی حاصل کرتے ہوئےسیول
سروس میں شامل ہو سکتا ہے۔ باشعور افراد امتحان دے کر کامیابی حاصل کئے ہوئے ہیں ۔
آج اُردو کی ترقی میں رکاوٹ کے اسباب ہم خود ہی ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو اردو زبان میں تعلیم دلانے پر
شرمندگی محسوس کرنے لگے ہیں کہ اس سے
ہمارے بچوں کا مستقل خراب ہوگا ۔ اورانگیریز ی تعلیم کو اہمیت دی جانے لگی ۔ اسطرح
انگریزی تعلیم کا حصول عام ہوتا گیا۔
جن اسکولوں میں اُردو کی تعلیم دی جارہی تھی۔
وہاں اُردو بطور ایک مضمون بھی قائم نہ رہ سکی ۔ ہمارے ذہنوں کو تبدیل کیا جانے
لگا کہ اردوزبان سے تعلیم حاصل کرنے پر روزی روٹی کے مسائل سے دو چار ہونا پڑتا
ہے۔ سماج میں ایسا ماحول ہو گیا کہ اردو میڈیم پڑھنے سے ہمارے نئی نسلیں ترقی کی
راہ میں دوسری قوموں کی شانہ بہ شانہ چل
رہی ہیں اور ہم فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے بچے انگریزی تعلیم کر حاصل کر رہے ہیں
جبکہ معصوم بچے دوسری زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرتے
ہیں ۔ خوبصورت مستقبل بنانے کے گمان میں ہم مادری زبان کی حقیقتوں سے جان کر انجان
بن گئے ۔ اور اپنی ہی زبان سے دور ہوتے چلے گئے۔
فروغ اردو کے مندرجہ
ذیل چند نکات پیش خدمت ہیں:
1۔ سب پہلے سے اپنے بچوں کو اُردو زبان سکھائی جائے کیونکہ
ماہرین کا کہنا ہےکہ مادری زبان میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا مستقبل
تابناک ہوتا ہے اس لئے کہ وہ مادری زبان میں ہی سوچتاہے اور بولتا ہے ، جذبات اور
ضروریات کا اظہار آسانی سے کر سکتا ہے۔
2۔
مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کے حصول کے فوائد کا شعور بیدار کرنا ، اور اس کے
لئے ماحول فراہم کرنا۔
3۔ اسکولوں میں اُردوزبان کے فروغ سے متعلق پروگرام
کا انعقاد کرنا۔ تحریری، تقریری مقابلہ ڈرامہ وغیرہ کا اہتمام
کریں تو طلباء میں دلچسپی پیدا ہوگی۔
4 ۔ موجودہ دور سائنس و ٹیکنا لوجی کا دور ہے اُردو ادب وتعلیم کے فروغ میں اس سے بھی استفادہ حاصل کر سکتے ہیں ۔
5۔ شعراء وادباء اُردو زبان کے فروغ و بقاء کے لئے
مختلف پہلوؤں سے متعلق موضوعات لکھیں تا کہ عوام کی ذہن سازی ہو۔
6۔
اُردو کی ترقی و بقاء کی باتیں کتابوں ، رسالوں اور اخباروں میں ہی قید ہیں لیکن
اس پر عملی اقدامات کئے جائیں ، اور اس کو روزگار سے جوڑا
جائے ۔
بہر حال ہم کو اُردو زبان کے مستقبل سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔
نہ ہو حالات سے مایوس
دنیا خود بسا اپنی
دلوں میں حوصلہ، حوصلوں
میں جان پیدا کر
تبسم آراء
پی ایچ ڈی اسکالرعثمانیہ
یونیورسٹی
9014782069
0 تبصرے