مقام ابراہیم ، حجر اسود اور ملتزم – خانہ کعبہ کی تاریخ
خانہ کعبہ کی تاریخ
اٹھا کر دیکھی جائے تو اس کی تعمیر ایک بہت ہی اہم واقعہ ہے۔ اس کی تعمیر میں بہت
سے اہم واقعات بھی پیش آئے اور بہت سے عوامل کا کلیدی کردار بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
مقام ابراہیم، حجر اسود اور ملتزم بھی خانہ کعبہ کی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔ جنہیں
کسی صورت الگ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ان کی اپنی بھی بہت اہمیت ہے جس کا جاننا بھی
انتہائی اہم ہے۔
مقام ابراہیم
بیت اللہ شریف کی تعمیر
کرتے ہوئے جب اس کی دیواریں اتنی بلند ہو گئیں کہ حضرت ابراہیمؑ کیلئے دریا میر مشکل ہوگئی تو مضرت اسماعیلؑ ایک
بڑا پتھر اٹھا کر لائے ۔ جس پر کھڑے ہو کر مزید تعمیر شروع کر دی گئی ۔ متعدد
روایات خصوصاََ مورخ کردی کے مطابق کہ جیسے جیسے تعمیراتی کام آگے بڑھتا رہا یہ پتھر خود بخود بلند ہوتا جاتا تھا۔ جب آپ
نیچے اترنا چاہتے تھے تو وہ اپنی اصل حالت میں آجاتا گویا یہ پتھر ایک لفٹ کا کام
کر رہا تھا۔ اس پتھر پر حضرت ابراہیمؑ کے قدموں کے نشان آج تک موجود ہیں جو اب
چاندی سے ڈھالے گئے نشانات کی صورت میں محفوظ ہیں۔ تقریبا50 سال قبل تک یہ سنگ
ابراہیم مطاف کے باہر ( باب کعبہ کی جانب ) ایک عمارت کے اندر صندوق کے اندر رکھا گیاتھا
۔ سعودی عرب کے فرماں روا شاہ فیصل نے 1387 ہجری میں ایک شیشے کے جار میں رکھوا
دیا تھا۔
حضرت عمر فاروق کے
زمانے تک " سنگ ابراہیم" خانہ
کعبہ میں باب کعبہ کی جانب بالکل ساتھ رکھا ہوا تھا۔ در اصل قریش نے سیلابی پانی
سے بچانے کیلئے اسے خانہ کعبہ کے ساتھ
رکھا تھا۔ حضرت عمر فاروق جب خلیفہ بنے تو علم دیا کہ سنگ ابراہیم کو اس کی اصل
جگہ پر منتقل کیا جائے۔ اس مرحلے پر اصل مقام کی نشاندہی پر الگ الگ رائے تھی ۔ مکہ
کے ایک شخص ابن عمر بن مخزوم نے دعوی کیا کہ اسے اصل جگہ معلوم ہے۔ اس کا کہنا تھا
کہ قریش جب "سنگ ابراہیم" کو اس کے اصل مقام سے ہٹا رہے تھے تو اس نے
ایک رسی کا سرا بیت اللہ کے رکن اول ( حجر اسود والا کونہ) دوسرا مقام ابراہیمؑ تک جا کر گرہ لگائی اور یہ رسی اس کے پاس اب تک
محفوظ ہے۔ حضرت عمر نے وہ رسی طلب کی اور ابن عمر بن
مخروم کے دعویٰ والی جگہ پر" سنگ ابراہیم" منتقل کر دیا گیا۔
کعبۃ اللہ میں یہ وہی مقام
ہے جس کے بارے میں اللہ نے حکم دیا تھا ۔کعبہ میں مقام ابراہیم کو مصلیٰ بناؤ۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے مسجد حرام قبلہ ہے
اور مسجد حرام میں نماز ادا کر نیوالوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہے۔ مسجد حرام میں امام
کی امامت کیلئے (عموماََ) وہ جگہ ہے جہاں حضرت ابراہیم نے با آواز بلند مسلمانوں
کو حج کیلئے پکارا تھا۔ حرم کعبہ میں امام کچھ عرصہ قبل تک اسی مقام کو اپنا مصلیٰ
بناتے رہے ہیں۔ اب بھی جن دنوں ہجوم کم ہوتا ہے امام اس جگہ کھڑے ہو کر امامت کرتے
ہیں ۔ یہ جگہ باب کعبہ کی جانب مقام ابراہیم سے چند گز پیچھے باب کعبہ اور مقام
ابراہیم کے درمیان میں ہے۔ دراصل یہ وہ جگہ ہے جہاں کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم ؑنے
اہل مکہ کو خانہ کعبہ کے طواف کیلئے پکارا تھا۔
حضرت ابراہیمؑ کے قدموں
کے نشانات سخت اور پہاڑی پتھر پر بن جانے کا مطلب واضح ہے کہ یہ ایک معجزہ ہے اور
اللہ اپنے محبوب بندوں کے لئے ہر چیز مسخر کر دیتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ کے پاؤں مبارک بھی آپ کے جد امجد حضرت ابراہیمؑ
کے پاؤں سے بے حد مشابہت رکھتے تھے۔ ایک صحابی حضرت جیم بن خذیفہ جو حضرت ابن زبیر
کعبہ کی تعمیر میں شریک تھے، فرماتے ہیں کہ آنحضور ﷺمیا کے قدمین شریفین کے نشانات
مقام ابراہیمؑ والے نشانات سے بے حد مشابہ تھے ۔ خود آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ میں
ابراہیم کی اولاد میں سے آپ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتا ہوں ۔ قدموں کے نشانات پر
چاندی کا خول چڑھانے سے قبل ان نشانات کی پیمائش کی گئی تو ایک قدم کی گہرائی دس
سنٹی میٹر اور دوسرے کی گہرائی نو سنٹی میٹر تھی۔ البتہ انگلیوں کے نشانات تقریبا مٹ چکے
تھے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ یہ نشانات صدیوں تک کھلے پڑے ر ہے اور لوگ ان کو اپنے
ہاتھوں سے چھوتے رہے جس کی وجہ سے انگیوں کے نشانات معدوم ہو گئے ۔ ہر قدم کی
لمبائی 22 سنٹی میٹر اور چوڑائی 11 سنٹی میٹر ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی
ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کا قد اتنا ہی لیا
تھا اتنا آج کے زمانے میں ایک لمبے قد والے شخص کا ہوتا ہے۔
حضرت ابرا ہیم کے قدموں کے نشانات والے پتھر کو چوری کرنے کی بھی
کوشش ہوتی رہی اور سیلابی پانی بھی اسے ایک جگہ سے دوسری
جگہ پھینکتا ر ہا۔ فاکہی صحیح سند سے روایت کرتے ہیں کہ جریج نامی ایک شخص نے مقام ابراہیمؑ کو چرا لیا اس کا
مقصد یہ تھا کہ وہ اسے روم کے بادشاہ کو پیش کر کے انعام حاصل کرے ۔لیکن اہل مکہ
نے اسے پکڑ لیا اور قتل کر دیا۔ حضرت عمر کے دور میں بھی مقام ابراہیم سیلابی پانی
میں بہہ گیا۔ اسے تلاش کرنے کے بعد فیصلہ ہوا کہ اسے مستقل طور پر محفوظ کر دیا
جائے ۔ مقام ابراہیم کے جس پتھر پر یہ نشانات محفوظ میں اس پتھر کا رنگ زردی مائل
سرخ ہے۔ درمیان میں سفید لکیریں بھی ہیں ۔ یہ پتھر تقریبا چوکور ہے۔ 1967 سے قبل
مقام ابراہیم ؑ ایک گھر میں رکھا ہوا تھا اور اب عالم اسلامی کی تجویز پر اسے ایک
شیشے کے خول میں رکھ کر محفوظ کیا گیا ہے۔ کمرہ ختم کرنے کی تجویز اس لئے پیش کی
گئی کہ طواف کرنے والوں کو وقت پیش آرہی تھی کہ یہ کمر وطواف کے راستے میں تھا۔
حجر اسود
حجر کے معنی پتھر اور
اسود کے معنی کالا رنگ یعنی یہ ایک کالے رنگ کا پتھر ہے جو خانہ کعبہ کی دیوار کے
ایک گوشے میں اتنی بلندی پر لگا ہے کہ پست قد انسان کا منہ بھی اسے چوم سکے۔ خانہ
کعبہ بیسیوں دفعہ گرا اور بنا۔ کبھی سیلاب میں بہہ گیا۔ مؤرخین کے مطابق حرم کعبہ
میں 82 مرتبہ بارش کا پانی جمع ہوا یا سیلاب آیا اور خانہ کعبہ کبھی آگ میں جل
گیا۔ حضرت ابراہیم نے جس کعبہ کی بنیاد رکھی تھیں ۔ اس کے پتھر بنیادوں میں تو موجود
ہیں ظاہری کعبہ میں اب کوئی پتھر نہیں بچا۔ اس طرح حضرت ابراہیم کا تعمیر کردہ
کعبہ جو ہمیں نظر آتا ہے اس میں سے صرف یہ ایک پتھر ہی بچا ہے۔ عرب کے عوام نے
جاہلیت کے دور میں بھی اسے بڑی حفاظت سے قائم رکھا۔ 317 ہجری میں باطنیہ فرقے کے
کچھ لوگ اسے نکال کر لے گئے لیکن پھر واپس کر گئے ۔ یہ پتھر خانہ کعبہ کے اس گوشہ
میں لگا ہے جس کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوں تو بیت المقدس سامنے پڑے گا۔ یعنی جب حجر
اسود کا استلام کیا جاتا ہے تو بیک وقت خانہ کعبہ اور بیت المقدس سامنے ہوتے ہیں۔
بظاہر حجر اسود ایک پتھر ہے لیکن اس کی فضیات یہ ہے کہ مکہ کا ذرہ ذرہ بدل گیا ۔
کعبہ جو آج نظر آتا ہے اس کی ایک ایک اینٹ بدل گئی لیکن یہ وہ پتھر ہے جس پر حضرت
ابراہیم خلیل اللہ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک
کے مقدس لب یا مبارک ہاتھ مس کرتے رہے۔
حضرت ابراہیمؑ جب خانہ
کعبہ کی تعمیر میں مصروف تھے اور حجر اسود تک دیوار بلند ہوگئی تو حضرت اسماعیل ؑ کو
کہا کہ "حجر اسود کو تلاش کر کے لاؤ" ( حجر اسود طوفان نوحؑ کے وقت سے
بہہ کر جبل ابو قبیس جو صفا سے ملحقہ پہاڑی پر پڑا تھا) حضرت اسماعیل ؑبعد تلا ش
ایک پتھر اٹھا لائے۔ لیکن وہاں حجر اسود موجود پا کر اپنے والد سے پوچھا "یہ
پتھر آپ کو کہاں سے ملا" حضرت ابراہیمؑ نے بتایا کہ اسے وہ لایا ہے جس نے تجھ
پر اعتبار نہیں کیا۔
نبوت سے پانچ سال قبل
یعنی جب حضرت محمدﷺ کی عمر 35 سال تھی،
قریش نے خانہ کعبہ کی از سرنوتعمیر کافیصلہ کیا کیونکہ کعبہ کی دیواریں سیلاب سے شکستہ ہوگئی تھیں۔ خانہ کعبہ کی تعمیر میں تمام قبائل
شریک تھے۔ لیکن جب حجر اسود کو اس کی جگہ پر لگانے کا موقع آیا توہر قبیلہ کی خواہش
تھی کہ یہ اعزاز اسے حاصل ہو۔ اس پر چار روز تک جھگڑا ہوتا ر ہا اور یہ خدشہ پیدا
ہوگیا کہ یہ جھگڑا کسی بڑے فساد کا باعث نہ بن جائے۔ پانچویں روز ابو امیہ بن مغیرہ
نے جو قریش میں بڑی عمر کا ہونے اور دانشمند ہونے کی وجہ سے احترام کی نظر سے
دیکھا جاتا تھا، نے رائے دی کہ کسی کو ثالث بنالیا جائے اور اس کے فیصلے پر سب عمل
کریں۔ اس رائے کو تسلیم کر لیا گیا اور طے پایا کہ اب سب سے پہلے جو حرم میں آئے
گا اس کا فیصلہ تسلیم کیا جائے گا۔ بعض روایات کے مطابق فیصلہ یہ ہوا کہ اب باب بنی
شیبہ (جو باب کعبہ کی جانب کچھ عرصہ قبل
موجود تھا ) سے جو شخص حرم میں داخل ہو گا وہی حجر اسود کو نصب کرے گا۔ عین اس وقت
تک رسول اکرمﷺ تشریف لے آئے ۔ آپﷺ کے کندھے پر ایک چادر تھی ۔ سب پکارا ٹھے کہ
امین آگئے ہیں۔ ( نبوت سے قبل آپ کو امین کے نام سے بھی پکارا جا تا تھا ) معاملہ
آپ کے سامنے رکھا گیا تو آپ نے اپنی چادر بچھا دی اور اس پر حجر اسود رکھ دیا۔ پھر
ہر خاندان کے رئیس سے چادر کا کنارہ پکڑنے کیلئے کہا۔ آپ خود دیوار پر چڑھ گئے ۔ کپڑا
اوپر اٹھایا گیا اور آپ نے حجر اسود اٹھا کر نصب کر دیا۔
حجر اسود کو حضرت ابراہیمؑ یا حضرت اسماعیل ؑنے
کہاں سے حاصل کیا؟۔ یہ بہت اہم سوال ہے۔ تاریخ مکہ میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا
حجر اسود جنت سے آیا ہوا پتھر ہے۔ یہ دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا۔ بنو آدم کے
گناہوں نے اسے سیاہ کر دیا ہے۔ این حاتم نے سدی سے نقل کیا ہے جب حضرت آدمؑ جنت سے اتارے گئے تو وہ حجر اسود کو ساتھ لائے تھے۔
اسی طرح ابی جہم سے منقول ہے کہ جب حضرت ابرا ہیمؑ کے حکم سے حضرت اسماعیلؑ پتھر
تلاش کرنے کیلئے قریب کے نالے کی طرف گئے تو اس دوران جبرائیلؑ نے حجراسود حضرت
ابراہیمؑ کولا کر پیش کر دیا۔ طوفان نوح
میں جب ہر چیز غرق ہو گئی تو اللہ نے اس پتھر کو آسمان پر اٹھا لیا تھا اور پھر
جبرائیل ؑ نے لا کر واپس کر دیا۔۔ بہت سی روایات کے مطابق طوفان نوح کے بعد یہ پتھر
جبل ابو قبیس پر پڑا رہا۔
ملتزم
باب کعبہ اور حجر اسود
کے درمیان تقریبا سات، آٹھ فٹ کے قریب بیت اللہ کا جو حصہ ہے اسے ملتزم کہا جاتا
ہے۔ پر طواف کے بعد ملتزم سے لپٹ کر دعا مانگنا مستحب ہے۔ یہ دعا کی قبولیت کا
مقام ہے۔ خود رسولﷺ اس مقام سے لپٹ جایا
کرتے تھے۔ طواف کے بعد جب بھی موقع ملے اس جگہ سے لپٹ جانا ، اپنا سر، سینہ اور
پیٹ اس سے لگا نا دونوں ہاتھوں کو سر سے بلند کر کے دیوار کے اس حصے کو لگانے کے
بعد خوب رو رو کر دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ بعض کتب میں یہاں ما نگنے والی دعا ئیں
بھی تحریر ہیں۔ لیکن ضروری نہیں کہ یہ ہی دعائیں پڑھی جائیں۔ یہ جگہ ہے جہاں اپنی
زبان میں اپنے دل کی تمنائیں بیان کی جاتی ہیں۔ حضرت ابن عباس حضور اکرم ﷺ سے
روایت کرتے ہیں کہ ملتزم وہ جگہ ہے جہاں دعا قبول ہوتی ہے۔ انسانوں کی کوئی ایسی
دعا نہیں جو یہاں قبول نہ ہوتی ہو۔
یہ بھی پڑھیں: غلاف کعبہ کی تاریخ
0 تبصرے