خدا کے بندوں کو جینے دو۔۔۔
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
بجٹ سے پہلے منی بجٹ کے نام پر غریب عوام کو ایک اور جھٹکا دے دیا گیا۔ "مرے کو مارے شاہ مدار" کے مصداق عوام
کے سروں پر شاہی کرتی اشرافیہ نے اب مروں پر حکمرانی کرنا بھی شروع کردی ہے۔ زندوں
کا استحصال تو شاید بعض اوقات ہر معاشرے میں ہوتا ہے مگر پاکستان ایسا خطہ ہے جہاں مروں کا استحصال بھی بڑی دیدہ دلیری سے
جاری ہے۔ پاکستانی اشرافیہ کی سنگدلی اور
سفاکی کو بیان کرنے کیلئے یہ "استحصال " کا لفظ بھی بہت ہلکا پھلکا ہے۔ اگر اس کیلئے "گور
خوری" کا لفظ استعمال کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ظلم کا یہ سلسلہ تھمنے کا
نام ہی نہیں لے رہا۔ ایک سے بڑھ ایک موقع پرست اور "ماس فروش "پاکستانی
قوم پر مسلط کیا جاتا رہا ہے اور یہ مشق تمام ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔
اگر چہ گور خوری کا یہ سلسلہ پاکستان بننے کے ساتھ ہی شروع
ہو گیا تھا جب بانیء پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو بیماری کی حالت میں کراچی
کی شاہراہ پر بے بسی کی موت مرنے کیلئے بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا تھا۔ یوں کلمہ
اور اسلام کے نام پر بننے والا یہ ملک مکمل طور پر انسانی سروں کےتاجروں کے شکنجے میں دے دیا گیا۔ جمہوریت کے نام پر
عوامی امنگوں سے کھلواڑ معمول بن گیا۔ کروڑوں عوام کے نصیبوں کے فیصلے چند طالع
آزماؤں نے اپنے ہاتھوں میں لے لئے۔ پھر انہوں نے جس طرح سے پورے ملک کو اپنے
اشاروں پر نچایا اس کے نتائج ہم پچھلے ستر سال سے بھگت رہے ہیں۔ یہاں ہم سے مراد
خدا کے بندے ہیں جو اپنے نصیبوں کیلئے ہر وقت صرف خدا کی طرف ہی دیکھتے ہیں، ان
سفاکوں کے ظلم و ستم سہہ کر بھی کہتے ہیں کہ ان سے خدا پوچھے گا۔ مگر یہ ظالم خدا
کی اس دھرتی میں ہی ناخدا بن کر گھومتے ہیں زندگی اور موت کے فیصلے کرتے ہیں کس کو
رزق دینا ہے اور کسے بھوکا رکھنا ہے یہ فیصلے بھی یہی زمینی خدا انجام دے رہے ہیں۔
لیکن یہ ظالم جان لیں کہ وہ کتنے ہی خدا بن جائیں مگر میرے خدا کے ہاں دیر تو ہے لیکن
اندھیر نہیں جب اس نے تمہاری ان حرکتوں کا نوٹس لے لیا پھر وہ عدالت پاکستانی
عدالت نہیں کہ تم اپنا اثررسوخ استعمال کرکے یوں دندناتے پھرو گے۔ ایسی مار پڑے
گی کہ پھر کسی کو یاد کرنے کے بھی قابل نہیں رہو گے۔
گذشتہ پانچ سالوں میں جس طرح سے اس ملک اور غریب عوام کے
ساتھ کھلے عام کھلواڑ کیا گیا اس کی مثال ہماری تاریخ میں نہیں ملتی ۔پہلے صرف
عوام کے سروں کی بولی لگتی تھی، ان کا خون نچوڑا جاتا تھا مگر اب عوام کو زندہ درگور کرکے " ماس خوری" بھی شروع کر
دی گئی ہے۔ اشرافیہ نے ایک دوسرے کے خلاف چور
چور کا کھیل رچا کر عام آدمی کی دھوتی اتارنے سے لیکر قبر میں اتارنے کا پورا پورا
نہ صرف منصوبہ بنایا ہوا ہے اور اس پر عمل
کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ جانے نہیں دے رہے۔ بلکہ اگر کوئی اس منصوبے کے خلاف
بات کرے تو نہ صرف وہ زیرعتاب آ جاتا ہے بلکہ اسے اپنے دلالوں اور کرائے کے قاتلوں
کے ذریعے موت کے منہ میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں اپنی طاقت کے زور پر
ملک دشمن اور غدار بھی ثابت کر دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قصور کس کا؟؟؟ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
موجودہ منی بجٹ بھی استحصال اور "گورخوری" کا وہی
تسلسل ہے جو گذشتہ 70 سالوں سے جاری ہے۔ اشرافیہ اپنی دولت کے انباروں کو ہلکا
کرنے کیلئے تیار نہیں، ملک کیلئے
قربانیوں کیلئے ایک بار پھر عام عوام کو بکرا بنایا گیا ہے۔ دو وقت کی روٹی کیلئے
سسکنے والوں پر شب خوں مارا گیا ہے اور خودکشیوں پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ تمام
آسائشیں عام آدمی کی پہنچ سے پہلے ہی کوسوں دور تھیں اب روٹی بھی کھسکائی جا رہی
ہے۔ آٹے، پٹرولیم کی قیمتیں آسمانوں پر پہنچانے کے بعد ادویات بھی غریب
آدمی کی پہنچ سے دور کر دی گئی ہیں۔ خوردنی تیل، بسکٹ حتیٰ کہ ٹافیوں تک پر ٹیکس
کی شرح میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ان ظالموں نے ہر پیدا ہونے والا پاکستانی بچہ بھی
اپنے اللے تللوں کیلئے مقروض کر چھوڑا ہے اب اس کی خوراک بھی اس سے چھینی جا رہی
ہے۔
"کہاں تک سناؤں، کہاں تک سنو گے" یہ باتیں ہر ذی شعور
پاکستانی کو معلوم ہیں لیکن میں انہیں ضبط تحریر میں لا کر دل کے پھپھولے ہی
جلا رہا ہوں کیونکہ ان باتوں کا اثر نہ تو ظالم پر ہو گا اور نہ مظلوم پر ، ظالم
اپنے ظلم سے بعض نہیں آئے گا اور نہ مظلوم ایک اور سوراخ سے ڈسوانے سے بچنے کیلئے
پیچھے ہٹے گا۔ جو بھی شکاری نیا جال لے کر ہمیں پھنسانے کیلئے آگے بڑھے گا ہم پہلے
ہی اس کیلئے "مرد مومن ، مرد حق " کے نعرے لگانے کیلئے تیار ہوں گے اور
اس کیلئے اپنی جانیں ہتھیلی پر لے کر اس کے پیچھے پیچھے بھٹکتے پھریں
گے۔ شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری کا نہ
صرف اقرار کریں گے بلکہ موقع پڑنے پر اس کا عملی مظاہرہ بھی کریں گے۔ جاں لیں کہ
ایسی عوام کیلئے ایسے ہی حکمران پیدا کئے جاتے ہیں جو عوام کے حقوق کے محافظ نہیں
بلکہ ان کے استحصال سے ہاتھ آنے والے مال غنیمت میں حصہ دار ہوتے ہیں۔ ان کا کردار
بس اتنا ہوتا ہے کہ اس حصے کی بدولت وہ اپنے حقیقی مالکوں کی خیر
مانگتے ہیں۔ ان کےکرتوتوں کی پردہ پوشی کرتے ہیں ان کے حصوں کی گالیاں اور نفرتیں
اپنے ماتھوں پر لکھواتے ہیں اور رخصت ہو
جاتے ہیں۔ پھر اپنی باری کے انتظار میں
جھوٹی سچی باتیں کرتے ہیں ۔ میڈیا اور طاقتور حلقوں میں لابنگ کرتے ہیں عوام اور
اشرافیہ کو رام کرتے ہیں اور ایک بار پھر ایک نیا نعرہ لے کر نمودار ہو جاتے ہیں۔
ایک نئی باری کیلئےاپنے آپ کو قابل قبول بنا لیتے ہیں۔ یہ کھیل جاری ہے اور شاید
جاری رہے گا کیونکہ نہ ظالم کے لالچ کا دوزخ بھرے گا اور نہ عوام کی دوسرے ، تیسرے ، چوتھےسوراخ
سے ڈسوانے کی عادت بدلے گی۔ یوں خدا کے بندے نہ جی سکیں گے اور نہ مر سکیں گے بلکہ
جیتے جی مرتے رہیں گے۔
0 تبصرے