اسے مار دو، اسے مار دو۔۔۔ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

اسے مار دو، اسے مار دو۔۔۔ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی


اسے مار دو، اسے مار دو۔۔۔

تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

 

پاکستان میں انسانی جان تو ایک چند ٹکوں کا کھلونا بن چکی ہے۔ کسی سے فکری اختلاف ہو مار دو، کسی سے مذہبی اختلاف ہو مار دو، کسی سے سیاسی اختلاف ہو مار دو، کسی سے انتظامی اختلاف ہو مار دو، کسی سے پیسے یا جائیداد کا جھگڑا ہو مار دو، کسی سے کاروباری رقابت ہو مار دو ، کسی کا کچھ دینا ہو مار دو، کسی سے کچھ لینا ہو مار دو،  کوئی اپنا حق مانگتا ہے مار دو، کوئی اپنا حق چھوڑنے کو تیار نہیں مار دو ، کوئی اپنے لئے یا اپنے پیارے کیلئے انصاف مانگتا ہے مار دو، کوئی ناانصافی کے ساتھ جینے کو تیار نہیں مار دو، کوئی غریب کیلئے ، ملک کیلئے، مظلوم کیلئے آواز اٹھاتا ہے مار دو۔۔۔

 

پاکستان کے نام کے ساتھ بہت سے لوگ مملکت خداداد بھی لکھتے ہیں میں بھی عموماََ ایسا ہی کرتا ہوں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ ہمارے اسلاف نے یہ ملک کلمہ اور اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا۔ اس کیلئے بہت قربانیاں بھی دی تھیں لیکن انہوں نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ آج اس ملک میں ان کے ایثاروقربانی کا یوں مذاق بنایا جائے گا۔ اللہ کی دھرتی میں سب کچھ ہوگا مگر نہ کلمہ ہو گا نہ اسلام ۔ سب کچھ برائے فروخت ہو گا کلمہ بھی، اسلام بھی، ایمان بھی، عزت و توقیر بھی ،انسان بھی، مگر پھر بھی ہم اپنے آپ کو مسلمان بھی کہلائیں گے اور پاکستانی بھی۔ بے ایمانی بھی کریں گے اور ایمان کی دولت کے ہونے کا دعویٰ بھی۔ ناحق لوگوں کا قتل عام بھی کریں گے ، بازار میں چلتے لوگوں کو خون بہائیں گے حتیٰ کہ مساجد میں اللہ کے آگے جھکنے والوں کو شہید کریں گے پھر بھی انسانیت کی بقا کا دعویٰ بھی کریں گے۔دولت کو اپنی تجوریوں میں بند کر کے غریبوں اور محتاجوں کے سرپرست بھی کہلائیں گے۔


یہ بھی پڑھیں: خدا کے بندوں کو جینے دو۔۔۔ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

 

آج ہمارا ملک جس دوراہے پر آن کھڑا ہوا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ناانصافی ہے۔ کیونکہ معاشرے ظلم و زیادتی کے ساتھ تو زندہ رہ سکتے ہیں مگر انصافی کے ساتھ ہرگز نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک ، ہمارا معاشرہ  حتیٰ کہ  یہاں کا انسان بھی اپنی سانسیں گن رہا ہے۔  خودکشیوں کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے اور جو خودکشیاں نہیں کرنا چاہتے وہ اللہ سے اپنے مرنے کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ یہ نظام پر عدم اعتماد نہیں تو کیا ہے۔ یہ اس نظام کی ناکامی نہیں تو اسے کیا نام دیا جائے۔

 

بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھے لٹیرے بلند بانگ بھاشن دیتے ہیں کہ ملک کی معیشت ڈوب رہی ہے اس لئے قربانی دینا ہو گی او ر پھر سارا بوجھ غریب شہری پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ اپنے لئے آئے روز نئی نئی مراعات کی منظوری دی جاتی ہے ۔ قومی خزانے سے بڑی بڑی گاڑیاں ، بڑے بڑے گھر بٹورے جاتے ہیں۔ " ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا" کے مصداق جس جانب بھی نظر دوڑائیں الو ہی الو نظر آتے ہیں۔ یہاں صرف کھانے والے ہی نہیں اجاڑنے والوں کی بھی بہتات ہے۔

 

یہاں کا ہر بہروپیا یہ تین کارڈز ضرور استعمال کرتا ہے۔  جن میں مذہب کارڈ سب سے طاقتور ہے۔ حب الوطنی کارڈ اور سبز باغ کارڈ کا نمبر بالترتیب دوسرے اور تیسرے پر آتا ہے۔ سیاست اور انصاف کا ہر الو مذہب کارڈضرور استعمال کرتا ہے۔ لوگوں کو مذہب کے نام پر بے وقوف بناتا ہے ۔ اللہ کو جان دینی ہے، ریاست مدینہ بنانی ہے یا اسلامی نظام نافذ کروانا ہے ہمارا ساتھ دو  اور غریب بے چارا مذہب کے نام پر آسانی سے بلیک میل ہو جاتا ہے۔ پھر وہ طاقت میں آ کر وہ وہ انی مچاتا ہے کہ "الامان و الحفیظ"۔ اسی طرح حب الوطنی کا کارڈ بھی بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ جو بلیک میلنگ میں آ جائے تو سو بسم اللہ جو اس جھانسے میں نہ آئے اور حصول حق کیلئے آواز بلند کرتا رہے  اسے غدار قرار دے کر  پابند سلاسل کر لو، غائب کردو یا مار دو۔

 

اسی طرح انصاف کے بڑے بڑے ایوانوں میں انصاف کی ایسی ایسی بولیاں لگتی ہیں کہ بڑے بڑے بے ایمان شرما جائیں۔ مگر نہیں شرم آتی تو ان بے انصافوں کو شرم نہیں آتی ۔ملک میں رہنے والے ہر اس شخص کا اعتبار ان اداروں سے اٹھ چکا ہے ۔ہر بندہ یہ کہتا نظر آتا ہے کہ غریب کو انصاف نہیں ملتا۔ دوسری صورت میں اگر دیکھا جائے تو وہ کہہ رہاہوتا ہے کہ انصاف بکتا ہے جو غریب نہیں خرید سکتا۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ تعلیم حاصل کرنا غریب کے بس کی بات نہیں رہی مقصد وہ کہنا چاہتے ہیں کہ علم اور ڈگریاں بھی بک رہی ہیں۔ حتیٰ کہ انسانی زندگیاں بھی برائے فروخت ہیں۔ کیونکہ یہ بھی عام سننے کو ملتا ہے کہ علاج کروانا بھی غریب کے بس میں نہیں رہا ۔

 

مطلب کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں ، ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے اور اس الو کے رکھوالے اور پالنے بھی ہم خود ہی ہیں۔ اپنا خون پلا کر اس الو کو پلنے اور بڑھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ ان کی انہی ناانصافیوں پر واہ واہ کے ڈونگرے برساتے ہیں۔ ان کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دباتے ہیں۔ان کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں۔ یوں ہم مثل شجر ہوئے جو اپنے کاٹنے والے کو سایہ فراہم کرتے ہیں۔

 

یہ باتیں تو تھیں ان خواص کے بارے میں جنہیں ہم اشرافیہ کا لقب بھی دیتے ہیں۔ ان کے گن بھی گاتے ہیں۔ مگر کبھی اپنے گریبان میں بھی جھانکا ہے کہ ہم خود بھی کتنے بڑے رانگ نمبر ہیں۔ ہمارے ملک کوئی بھی چیز خالص نہیں ملتی حتیٰ کہ جان بچانے والی ادویات تک دو نمبری کا شکار ہو کر رہ گئی ہیں۔ دودھ میں پانی کوئی جرنیل، جج یا کمشنر نہیں ملاتا، مرچوں میں برادا اور کیمیکل  اور دیگر اشیاء کی دو نمبری پر ہمیں یہ جرنیل ، جج اور اے سی، ڈی سی مجبور نہیں کرتے مگر ہم کرتے ہیں۔ اللہ کا خوف ہم کب کا بھول چکے صرف پیسے کی طاقت کے قائل ہو چکے ہیں۔ اللہ اور مذہب کا استعمال تو ہم صرف لوگوں کو خوف زدہ کرنے  کیلئے کرتے ہیں۔  اگر ہمیں خود مذہب کا پاس  اور خوف خدا ہوتا تو ہم خود تو اچھے شہری ہوتے۔یوں اچھے معاشرے کی امید لگا کر نہ خود کو بے وقوف بناتے اور نہ اوروں کو اور یہ بھی نہ کہتے پھرتے کہ اللہ رحم کرے گا۔ کیونکہ اللہ ظالموں اور غیرمنصفوں پر کبھی رحم نہیں کرتا۔

 

آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ مار دو کے اس معاشرے کو اگر جینا ہے تو ناانصافی کے طور کو بدلنا ہو گا۔ ناانصافی کی بجائے انصاف کو اپنانا ہو گا۔ دوسروں کو بدلنے سے پہلے خود بدلنا ہو گا۔ "ماردو "کی بجائے "پیار دو " کو اپنانا ہو گا" لوگوں کو سبز باغ دکھانے کی بجائے سچ سمجھانا ہو گا۔ تب بدلے کا یہ پاکستان جب ہم بدلیں گے۔ کسی چورن کا کاروبار کرنے کی بجائے سچ کو اپانا ہو گا تب بدلے گا یہ معاشرہ ، تب بدلے گی ہماری حالت ، تب عالمی معاشروں میں ہمارے توقیر بڑھے گی۔ ورنہ خاکم بدہن تم رہو گے نہ تمہاری داستاں رہے گی داستانوں میں۔۔۔


یہ بھی پڑھیں: قصور کس کا؟؟؟  تحریر: فاروق شہزاد ملکانی 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے