غلاف کعبہ کی تاریخ

غلاف کعبہ کی تاریخ
 

غلاف کعبہ کی تاریخ

 

بیت اللہ کیلئے سب سے پہلے پر دہ  یا غلاف حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے بنوایا پھر عدنان کو یہ سعادت حاصل ہوئی ۔ دنیا کے مختلف حصوں سے جو امراء کعبہ کی زیارت کیلئے آتے وہ مختلف رنگوں کے پردے بھی ہمراہ لاتے اور خانہ کعبہ کی دیواروں پر لڑکا دیتے ۔ اسلام کے ظہور سے قبل سب سے پہلے جس شخص کو مکمل غلاف چڑھانے کی سعادت ملی وہ یمن کا بادشاہ ابوکرب تبان اسعد تھا۔

 

حضور ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ اسعد کو برا نہ کہو کیونکہ اس نے سب سے پہلے کعبہ پر غلاف چڑھایا۔ ابو کرب تبان اسعد کا واقعہ بڑا دلچسپ ہے۔ اس نے یمن سے آکر یثرب (مدینہ) پر قبضہ کیا تھا اور اپنے بیٹے کو وہاں چھوڑ گیا تھا جو ایک اچانک حملے میں قتل ہو گیا اس پر ابو کرب تبان اسعد نے یثرب (مدینہ ) کو تباہ کرنے کا عزم کیا۔ اس مقصد کیلئے وہ یثرب (مدینہ ) پہنچ بھی گیا ادھر اہل یثرب بھی عمرو بن طلحہ کی قیادت میں متحد ہو گئے ۔ اس دوران بنی قریظہ کے دو یہودی عالم اس کے پاس آئے اور اسے کہا کہ اے بادشاہ تو یثرب (مدینہ) کو برباد نہ  کر کیونکہ یہ مقام ہجرت نبیﷺ  ہے جو قریش کے قبیلے میں سے نمودار ہوگا۔  یثرب (مدینہ) اس نبی کا گھر ہوگا۔ ابوکرب تبان اسعد نے یہ سن کر اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور یمن کو براستہ مکہ واپس روانہ ہو گیا۔  واپسی پر اسے راستے میں  قبیلہ ہذیل کے افراد ملے اور اسے کہا کہ اے بادشاہ ہم آپ کو ایک چھپے ہوئے خزانے کا پتہ بتاتے ہیں۔ بادشاہ نے پوچھا وہ خزانہ کیا ہے؟   انہوں نے کہا کہ مکہ میں ایک گھر (حرم پاک) ہے لوگ اس کی پرستش کرتے ہیں اور چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔  قبیلہ بنی ہذیل  کا اصل مقصد یہ تھا کہ ابو کرب تبان اسعد حرم پاک پر حملہ کرے اور برباد ہو جائے ۔ کیونکہ ماضی میں جس منہ زور نے بھی حرم پاک پر حملہ کیا تباہ ہو گیا۔ بادشاہ یثرب (مدینہ ) سے چلتے ہوئے ان دو یہودی عالموں کو ساتھ لے آیا تھا جنہوں نے انہیں یثرب پر حملہ کرنے سے منع کیا تھا۔ اس بارے میں جب انہوں نے ان سے مشورہ طلب کیا تو  انہوں نے کہا کہ یہ لوگ تجھے اور تیری قوم کو برباد کر دینا چاہتے ہیں۔ ہم اس گھر کے سوا کوئی گھر نہیں جانتے جو اللہ نے زمین پر اپنے لئے بنایا ہو۔ دونوں یہودی عالموں نے اسے مشورہ دیا کہ تم بھی وہی کچھ کرو جو اس خطے کے لوگ کرتے ہیں یعنی اس کا طواف کرتے ہیں تم بھی اللہ کے گھر کی تعظیم و تکریم کرو۔ وہاں اپنا سر منڈاؤ اور جب تک رہو عجز و انکساری کے ساتھ رہو۔ بادشاہ نے حیران ہو کر پوچھا تم خود کیوں ایسا نہیں کرتے۔ یہودی علماء نے کہا بے شک وہ ہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا گھر ہے لیکن وہاں کے رہنے والوں نے اس گھر کے اندر اور اطراف میں بت نصب کر دئے ہیں۔ وہ نجس اور مشرک ہیں۔ بادشاہ نے ان کی بات تسلیم کر لی وہ مکہ آیا اور بیت اللہ کا طواف کیا۔ اونٹ ذبح کئے اور سرمنڈوایا۔ اسی بادشاہ ابو کرب تبان اسعد نے پہلے ٹاٹ کا غلاف چڑھانا چاہا لیکن مشورہ کے بعد یمن کے بنے ہوئے کپڑے کا منقش غلاف چڑھایا۔

 

قریش بھی ہر سال  10محرم کو کعبہ کا غلاف بدلتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں خالد بن جعفر بن کلاب نے کعبہ پر ریشمی کپڑے کا غلاف چڑھایا۔ قصی بن کلاب نے بھی قیمتی کپڑے کے غلاف  بنائے اور غلاف پر خرچ ہونے والی رقم قریش کے قبیلوں سے اکٹھی کی جاتی تھی۔ بنی مخزوم کے ابور بیعہ بن مغیرہ نے تجارت میں بہت نفع کمایا تو ایک سال اپنے منافع سے غلاف بنوایا۔ حضرت عبدالمطلب کی اہلیہ متیلہ بنت حبان نے اپنے بیٹے حضرت عباس کے گم ہو کر ملنے پر بطور نذر ریشمی غلاف چڑھایا۔ قریش نے  اعلان نبوت سے پانچ سال پہلے کعبہ کی تعمیر نو کی تو بڑے اہتمام کے ساتھ غلاف بھی بنوایا۔

 

فتح مکہ کے دن حضور ﷺنے فرمایا آج کا دن عظمت کا دن ہے اور ہم کعبہ پر غلاف چڑھائیں گے۔ چنانچہ یمن کا بنا ہوا سیاہ رنگ کا غلاف چڑھایا گیا۔ حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے دور میں مصری کپڑے کا غلاف بنوایا۔ حضرت عمر نے بھی ایسا ہی کیا اور آپ نے پہلی مرتبہ پرانا غلاف اتار کر حجاج میں تقسیم فرمایا۔ حضرت عثمان کے دور میں سال میں دو مرتبہ یعنی 10 محرم کو اور ۲۹ رمضان کو غلاف چڑھانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ خلفائے راشدین کے تقریباً ۵۰۰ سالہ دور میں بھی بغداد سے غلاف  بن کر آیا کرتے تھے ۔ مامون الرشید نے سفید رنگ کا غلاف چڑھایا۔ خلیفہ ناصر عباسی نے پہلے سبز رنگ کا پھر سیاہ ریشم سے غلاف تیار کرایا ۔ 761 ہجری میں سلطان حسن والئی مصر نے پہلی بار کعبہ کے بارے میں جو قر آنی آیات ہیں وہ زری سے کاڑھنے کا حکم دیا اور سورۃ آل عمران کی ۹۶ اور ۹۷ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۹۷ سورۃ بقرہ کی آیات 127،128غلاف پر کاڑھی جاتی تھیں ۔ اور ایک طرف غلاف بھیجنے والے حاکم کا نام ہوتا تھا۔ ( یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ) محمود غزنوی نے بھی زر در نگ کا غلاف بھیجا۔ ۱۹۲۷ء میں ابن سعود نے پہلی مرتبہ غلاف بنوایا۔ ۱۹۲۸ء میں امرتسر سے مولانا اسماعیل غزنوی اور مولانا داؤد غزنوی نے خلاف تیار کروا کر بھیجے ۔ سعودی عرب کے حکمران ملک عبدالعزیز نے 1346 ہجری میں مکہ مکرمہ میں ایک فیکٹری دارالکسوہ کے نام سے قائم کی جس میں بنارس سے ہندوستانی کاریگر منگوائے گئے ۱۹۶۲ء میں غلاف کی تیاری کی سعادت پاکستان کے حصے میں آئی۔ اس کے بعد سے سعودی حکومت خود ہی یہ غلاف تیار کرواتی ہے۔ غلاف کعبہ عمدہ قسم کے سبز ریشم سے تیار کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں ریشم کو گہر اسیاہ  رنگ دیا جاتا ہے غلاف کا اندرونی استر سفید رنگ کا ہوتا ہے۔

 

غلاف کعبہ کی بنائی میں قرآنی آیات:


 غلاف کعبہ کی بنائی اس طرح کی جاتی ہے کہ اس میں یہ عبارت ابھرتی چلی آتی ہے۔ لا اله الا الله محمد رسول الله سبحان الله و بحمده سبحان الله العظیم یا الله یا حنان یا منان ۔ یہ  غلاف پانچ ٹکڑوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ چار ٹکڑے بیت اللہ شریف کی چاروں دیواروں کے سائز کے مطابق تیار ہوتے ہیں اور پانچواں ٹکڑا کعبہ شریف کے دروازہ کیلئے خاص ہے۔ ہر نئے غلاف کے نیچے سفید کپڑے کا استر لگایا جاتا ہے مکمل غلاف کی تیاری میں کل 47ٹکڑوں کا استعمال ہوتا ہے ہر ٹکڑے کی لمبائی ۱۴ میٹر اور چوڑائی 90 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ غلاف کے بالائی حصہ میں ایک پٹی پر  قرآنی آیات کی کشیدہ کاری کی جاتی ہے۔ اس پٹی کے نیچے بھی کچھ عبارتیں لکھی گئی ہیں۔ اب غلاف کعبہ ہر سال 9 ذی الحجہ کو تبدیل کیا جاتا ہے اور عید الاضحیٰ کو کعبہ شریف نئے غلاف میں ملبوس ہوتا ہے۔

 

 

سونے کے تاروں سے کی گئی کڑھائی:

 

 غلاف کے چاروں طرف بالائی حصہ میں ایک خوبصورت پٹی ہے جس کا طول ۴۵ میٹر اور عرض ۹۵ سینٹی میٹر ہے یہ پٹی غلاف کی خوبصورتی اور اس کے جلال و جمال کو مزید نمایاں کرتی ہے اس پر نہایت عمدہ خط سے قرآنی آیات کی کشیدہ کاری کی گئی ہے۔ یہ طویل پٹی سولہ ٹکڑوں کا مجموعہ ہے۔ کعبہ کی ہر سمت چار ٹکڑے ہیں۔

 

مقام ابراہیم کی سمت کی پٹیاں:

.

 اس کا طول ۲۸۹ سینٹی میٹر ہے اس پر درج ذیل آیت تحریر ہے۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحيم

 واذ جعلنا البيت مشابة اللناس وامنا وتخذو من مقام ابراهیم مصلی (بقرہ: ۱۲۵)

"اور جب ہم نے بیت اللہ کولوگوں کے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ بنادیا اور حکم دیا کہ مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنالو"۔

 

 303سینٹی میٹر پٹی پر یہ تحریر ہے ۔ وعهدنا الى ابراهيم و اسماعيل ان طهرا بيتي للطائفين والعاكفين

 

والركع السجود ( بقره  ۱۲۵) اور ہم نے ابراہیمَ اور اسمعیلَ کو حکم دیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع وسجدے کرنے والوں کیلئے پاک صاف رکھا کرو۔

 

314 سینٹی میٹر کی پٹی پر یہ آیت شریفہ لکھی ہوتی ہے۔ واذا برفع البراهيم القواعد من البيت واسمعيل ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم (بقرہ (۱۲۷) اور جب ابراہیم و اسماعیل کعبہ کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے ( تو یہ دعا کرتے جاتے تھے ) اے ہمارے رب ہم سے یہ خدمت قبول فرما بے شک آپ خوب سننے والے اور خوب جاننے والے ہیں۔ ۲۳۸ سینٹی میٹر کی پنی پر یہ آیت بھی ہے۔ (ربنا واجعلنا مسلمین لک و من ذریتنا امة مسلمة لک وارنامناسکناوتب علینا انک انت التواب الرحیم ( (بقرہ ۱۲۸) اے ہمارے رب ہم کو اپنا فر مانبردار بنا دیجئے، اور ہماری اولاد میں سے ایسی جماعت پیدا فرما دیجئے جو آپ کی فرمانبردار ہو اور ہم کو ہمارے حج کے احکام بھی سکھا دیجئے اور ہم سے در گزارفرما بیشک آپ ہی درگزر کرنے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔

 

حطیم کے سمت کی پٹیوں پر آیات:

 

۲۲۳ سینٹی میٹرپٹی پر  بسم الله الرحمن الرحيم الحج اشهر امعلومات فمن فرض فيهن الحج فلا رفت ولا فسوق و لا جدال فی الحج (بقر ۃ 197)  حج کے چند مہینے  ہیں جو معروف و مشہور ہیں پھر جس نے ان مہینوں میں اپنے اوپر حج  لازم کر لیا یعنی حج کا حرام باندھ لیا تو اسکو چاہیے کہ زمانہ حج میں نہ تو بے حجابی کی باتیں کرے اور ناہی حکم عدولی کرے اور نہ کسی سے جھگڑا کرے۔ نئے رفث، نئے فسوق و جدال آجکل نفس و شیطاں بھی مایوس و نا کام ہے۔

 

۲۳۸ سینٹی میٹر پٹی پر یہ آیت شریف لکھی ہے  وما تفعلوا من خير يعلمه الله و تزودوا فان خير الزاد التقوى واتقون يا اولى الالباب (بقرہ ۱۹۷) اور تم جو بھی بھلائی کرواللہ تعالی اس کو جانتا ہے اور زادراہ ساتھ لے لیا کرو کیونکہ زاد راہ  کا بہترین فائد ہ تقویٰ و پرہیز گاری ہے اور اے اہل عقل مجھ سے ڈرتے رہو۔

 

 ۲۵۲ سینٹی میٹر پی پر یہ آیت مبار کہ تحریر ہے۔ لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربكم فاذا افضتم من عرفات فاذكرو الله عند المشعر الحرام (بقره۱۹۸) اس بارے میں تم پر کوئی گناہ نہیں کہ موسم حج میں اپنے رب  کا فضل یعنی ذریعہ معاش تلاش کرو پھر جب تم عرفات سے واپس ہونے لگو تو مشعر حرام کے پاس (مزدلفہ میں)  اللہ کاذکر کیا کرو۔

 

 199 سینٹی میٹر پٹی پر یہ آیت مکتوب ہے۔ واذكروه كما هذا كم وان كنتم من قبله لمن الضالين، ثم افيضنوا من حيث أفاض الناس واستغفروا الله (بقره ۱۹۸-۱۹۹) اور اللہ کاذکر اس طرح کیا کرو جس طرح اس نے تم کو سکھایا ہے اور اب سے پہلے تم ان طریقوں سے ناواقف تھے۔ پھر تم بھی وہیں سے واپس ہوا کرو جہاں سے عام لوگ واپس ہوتے ہیں اور اللہ سے استغفار کیا کرو ۔

 

باب فہد کی سمت غلاف کی پٹیوں پر درج آیات

 

 328 سینٹی میٹر پٹی پر یہ آیت تحریر ہے  بسم الله الرحمن الرحيم واذا بوانالا ابراهيم مكان البيت ان الا تشرك بي شيئا و طهر بيتى للطائفين و القائمين و الركع السجود (الحج ٢٦) اور وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے جب ہم نے ابراہیم کیلئےخانہ کعبہ کی جگہ مقرر کی اور حکم دیا کہ میرے ساتھ کس کو شریک نہ کر نا اور طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والو ں اور رکوع وسجود کرنے والوں کیلئے میرے گھر کو پاک صاف رکھنا۔

 

 243 سینٹی میٹر بی پٹی پر یہ آیت کریمہ مرقوم ہے۔ واذن في الناس بالحج یا توک رجالا و على كل ضامر ياتين من كل فج عميق ( الحج ۲۷) اور لوگوں میں حج کے فرض ہونےکا اعلان کردو کہ لوگ پھر تمہاری طرف پیدل چل کر آئیں گے اور دبلی پتلی اونٹنیوں پربھی سوار ہو کر دور دراز سے آئیں گے۔

 

حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان:

 

اس پٹی کی لمبائی 254  سنٹی میٹر ہے اس پر یہ آیت مبار کہ لکھی ہے۔  بسم الله الرحمن الرحيم قل صدق الله فاتبعوا ملة ابراهيم حنيفا وما كان من المشركين (آل عمران ۹۵) کہہ دیجئے کہ اللہ نے سچ فرمایا  پس دین ابراہیم کی پیروی کرو جو سب سے بے تعلق ہو کر ایک اللہ کے ہور ہے اور مشرکوں میں سے نہ تھے ۔

 

 267 سینٹی میٹر پٹی  پر یہ آیت شریفہ مکتوب ہے۔  ان اول بيت وضع للناس للذي بيكة مباركا وهدى للعلمین (آل عمران  96) پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے مقرر کیا گیا تھا وہی ہے جو مکہ میں ہے بابرکت اور جہاں کیلئے موجب ہدایت ہے۔

 

203 سینٹی میٹر پٹی پر یہ آیت مرقوم ہے۔  فیہ آیات بینت مقام ابراهیم و من دخله كان امنا (آل عمران ۹۷) اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک مقام ابراہیم ہے جو شخص اس (مبارک) گھر میں داخل ہوا اس نے امن پالیا۔

 

ایک اور پٹی جو 303 سینٹی میٹر ہے اس پر یہ آیت لکھی ہے۔  وللہ علی الناس حج البيت من استطاع اليه سبيلا و من كفر فان الله عنى عن العلمين ( آل عمران ۹۷) اور لوگوں کے ذمہ اس گھر کا حج کرنا اللہ تعالیٰ کا ایک حق ہے جو اس گھر تک آنے کی استطاعت رکھتے ہوں اور جو انکار کرے تو اللہ تعالی تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔

 

مرکزی پٹی کے نیچے

 

 غلاف کعبہ کی مرکزی پٹی کے نیچے ہر طرف دود دو پٹیاں ہیں البتہ دروازے کی جانب ایک بڑی پٹی ہے جس پر اس بادشاہ کا

نام لکھا ہوتا ہے۔ جس نے یہ غلاف کعبہ کی نذر کیا ہو۔ غلاف کے چاروں کونوں پر سورۃ اخلاص لکھی ہوئی ہے جس کی پیمائش ۸۲×۸۵ سینٹی میٹر ہے۔ نیز مرکزی پٹی کے نیچے چاروں طرف تین تین قندیلیں ہیں جن میں سے ایک پر الحمد للہ رب العالمین تحریر ہے اور اس کی پیمائش 72*58 سینٹی میٹر ہے جبکہ دوسری پریا حی یا قیوم لکھا ہے۔ اس کی پیمائش ۲۵ ۲۶ سینٹی میٹر ہے۔ تیسری پر یار حمٰن یا رحیم لکھا ہے اس کی پیائش ۲۶*۶۵ سینٹی میٹر ہے۔

 

 حطیم کی سمت مرکزی پٹی کے نیچے جو دو پٹیاں ہیں ان پر آیات مبارکہ تحریر ہیں۔ اس پٹی کا طول ۲۴۰ سینٹی میٹر ہے اس پر یہ آیت لکھی ہے۔  بسم الله الرحمن الرحيم. نبي عبادي اني انا الغفور الرحیم (الحجر ۴۹) اے پیغمبر میرے بندوں کو بتادو کہ میں بڑا بخشنے والا مہربان ہوں ۔

 

 243سینٹی میٹر پٹی پر یہ آیت لکھی ہے۔  واذا سالک عبادی عنی فاني قريب أجيب دعوة الداع اذا دعان ( غافر : 60) اور جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے پوچھیں تو انہیں بتادیں کہ بیشک میں قریب ہوں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں۔

 

حطیم اور رکن یمانی کے درمیان مرکزی پٹی کے نیچے دو پٹیاں ہیں۔ ۲۴۴ سینٹی میٹر لمبی اس پٹی پر یہ آیت شریفہ لکھی ہے۔  بسم الله الرحمن الرحيم و بشر المؤمنين بان لهم من الله فضلا كبيرا (الاحزاب : 47) اور آپ ایمان والوں کو اس بات کی خوشخبری سنادیجئے  کہ ان کے لئے اللہ کی جانب سے بڑا فضل ہے۔  اس پٹی پر یہ آیت شریفہ تحریر ہے۔ ومن يعمل سوءا او يظلم نفسه ثم يستغفر الله یجدالله غفور رحيم (النساء109 ) اور جوشخص کوئی برا کام کربیٹھے  یا اپنے حق میں ظلم کرلے پھر اللہ تعالی سے بخشش مانگے تو اللہ کو بخشنے والا اور مہربان پائے گا۔

 

حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان دو پٹیاں ہیں جن کا طول بالترتیب 242سینٹی میٹر اور 237سینٹی میٹر ہے۔ پہلی پٹی پر یہ آیت شریفہ تحریر ہے ۔  بسم الله الرحمن الرحيم ذلك و من يعظم شعائر الله فانها من تقوى القلوب ( الحج:۳۰) اورجو شخص ادب کی چیزوں ( جو اللہ نے مقرر کی ہیں ) کی عظمت کا خیال رکھے تو یہ بات پر وردگار کے نزدیک اس کے حق میں بہتر ہے۔ دوسری پٹی پر یہ آیت کریمہ لکھی ہے۔  و انی الغفار لمن تاب و امن و عمل صالحا ثم اھتدی ( سورة طه: ۸۰) اور جوتو بہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے پھر سیدھے راستہ پر چلے اس کومیں بخشنے والا ہوں۔  واضح رہے کہ غلاف کعبہ پرتحریر شدہ آیات شریفہ واسماء الہیہ اور ان کے سائز وغیرہ میں کبھی کبھی تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔

 

در وازہ  کا پردہ  اس سے غلاف کعبہ کا وہ حصہ مراد ہے جو بیت اللہ شریف کے درواز و پر لٹکا ہوتا ہے اس کو برقع بھی کہتے ہیں اگر چہ یہ غلاف کعبہ کا حصہ ہے مگراپنی آرائش و زیبائش میں بقیہ غلاف سے ممتاز ہے۔ اس کی لمبائی ۶۔۳۲ میٹر اور فرض ۳٬۳۰ میٹر ہے۔ اس کے کناروں پر اللہ ربی آٹھ جگہ مکتوب ہے درمیان میں تین جگہ گول دائرہ میں حسبی اللہ تحریر ہے نیز ان کے کناروں پر دس دائروں میں سورۃ فاتحہ لکھی گئی ہے۔ پردہ کے بالائی حصہ میں یہ آیت تحریر ہے۔  قد نری تقلب و جهک فی السماء فلنو ولینک قبلة ترضاها (بقره: ۱۴۳) بے شک ہم آپ کے منہ کا بار بار آسمان کی طرف پھیر ناملا حظہ کر رہے ہیں ۔ لہذا ہم ضرور آپ کو اس قبلہ کی طرف متوجہ کر دیں گے جسے آپ چاہتے ہیں۔ اس کے نیچے یہ عبارت لکھی ہوئی ہے  (بسم الله الرحمن الرحیم وسارعوا الى مغفرة من ربكم وجنة عرضها السموات والارض اعدت اللمتقين ( آل عمران ۱۳۳) اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف چلنے میں جلدی کرو جس کی چوڑائی ایسی ہے جیسے آسمانوں کا اور زمین کا پھیلاؤ یہ جنت پر ہیز گاروں کیلئے تیار کی جاچکی ہے۔

 یہ بھی پڑھیں: خانہ کعبہ تاریخ کے آئینے میں

اس کے نیچے یہ آیت شریفہ ہے۔  اللہ نور السموات و الارض (النور ۳۵) اس کے نیچے آیت الکرسی اور اس کے نیچے  بسم اللہ الرحمن الرحیم  کے بعد سورۃ فتح کی آیت لکھی ہے۔  لقد صدق الله رسوله الرؤيا بالحق لتدخلن المسجد الحرام ان شاء الله آمنين ( فتح: ۲۷) بلاشبہ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو سچا خواب دکھلایا جو واقعہ کے مطابق ہے۔ تم ضرور مسجد حرام میں امن و امان کے ساتھ داخل ہو گے ان شاء اللہ۔

 

پھر دو دائروں میں سورۃ اخلاص لکھی ہے اور ان کے درمیان میں  بسم اللہ الرحمن الرحیم  ہے۔ نیز ان دونوں کے درمیان میں یہ آیت لکھی ہوئی ہے۔  قل یا عبادی الذین اسرفوا على انفسهم لا تقنطوا من رحمة الله ان الله يغفر الذنوب جميعا الله هو الغفور الرحیم ( غافر: ۵۰) پھر اس کے ذرا نیچے  لا الہ الا الله الملک الحق المبين محمد رسول الله صادق الوعد الامین ۔ اور سورۃ قریش تحریر ہے ۔ اس کے نیچے یہ عبارت لکھی ہوئی ہے۔  صنعت هذه الستارة في مكة المكرمه واهداها الى الكعبة المشرفة خادم الحرمين الشريفين عبد الله بن عبد العزيز آل سعود تقبل الله منه۔

 

  یہ غلاف مکہ مکرمہ میں تیار ہوا جس کو خادم حرمین شریفین الملک عبداللہ بن عبدالعزیز نے کعبہ شریف کیلئے ہدیہ کیا۔ اللہ ان کے اس عطیہ کو قبول فرمائے ۔

(نوٹ: واضح رہے کہ خادم حرمین شریفین کے تبدیل ہونے سے یہ عبارت بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ یہ تمام معلومات بہت احتیاط کے ساتھ مرتب کی گئی ہیں تاہم کسی بھی غلطی بھول چوک کی صورت میں ادارہ" اردو ورلڈ" آپ سے معذرت خواہ ہے)

مزید پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے