خانہ کعبہ تاریخ کے آئینے میں
قرآن مجید کی سورۃ آل
عمران کی آیت 96 کا ترجمہ ہے تحقیق پہلا گھر جولوگوں کیلئے ( عبادت کیلئے ) مقرر
کیا گیا ہے وہ بکه (مکہ) میں ہے۔ بابرکت اور تمام جہانوں کیلئے موجب ہدایت ہے کہ
مکرمہ کے کئی نام ہیں بلکہ " یعنی ہجوم کی جگہ حاطمہ ( غرور توڑنے والا ) معاد
( جائے پناہ ) باسہ ( ملحدوں کو بلاک کرنے والا) ام القریٰ (شہروں کی ماں ) بلد
الامین ( پر امن شہر ) ام رحم القریش القادس وغیرہ۔ یہ مقدس عمارت مکعب مشکل ہونے
کی جسے کہہ کے نام سے معروف ہوئی ۔ حرمت والی جگہ ہونے کی وجہ سے مسجد حرام کہلاتی
ہے۔ اللہ کا گھر ہونے کے باعث بیت اللہ ان کی جگہ اسے مسجد حرام کے نام سے پکارا
گیا ہے۔ کعبہ کی بنیاد رکھنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے عورت تامل کے ان
کو انا الیہ کے چاروں طرف پتھروں سے نشان بنائے اور یہی حدود حرم ہے ۔ مکہ سے جدہ
کی سمت 18 کلو میری 60 زبان کے راستے مقام اضاق کی طرف سے 16 کلومیٹر اور مدینہ
منورہ کی جانب تعمیم جو مکہ سے صرف 7.5 کار کی صورت ابراہیم علیہ السلام کے نشانات
حدود حرم کو فتح مکہ کے بعد حضرت محمد اللہ نے حضرت تمیم بن اسید خزاعی کے ذریعے
پتھر نصب کرائے ۔ خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر حضرت عثمان حضرت امیر معاویہ حضرت
عبد الملک بن مروان نے ان نشانات کو دوبارہ واضح کیا۔
زمین کی ناف:
معروف محقق قاضی محمد
سلیمان منصور پوری اٹلس کو مد نظر رکھ کر لکھتے ہیں " کرہ ارض جنوب میں 40
درجے شمال میں 80 در جے عرض البلاد تک آباد ہے۔ دونوں کا مجموعہ 120 اور نصف 60 ہے۔
اس ساٹھ کو 80 درجہ شمال سے نکالیں تو 20 اور 60 سے 40 درجے جنوب کو نکالیں تو 20
درجے شمالی ہے۔ جبکہ مکہ ساڑھے اکیس شمال پر واقع ہے۔ انسانی جسم میں بھی ناف عین
وسط میں نہیں ہوتی اسی طرح مکہ زمین کی ناف دنیا کا وسط الدام القرئی (شہروں کی
ماں) ہے۔
خانہ کعبہ کے تعمیر
کنندگان:
مؤرخین کے مطابق بیت
اللہ کی تعمیر 12 مرتبہ ہوئی ہے۔ بعض روایات پر شک کا بھی اظہار کیا جاتا ہے۔ 1۔
فرشتے 2 حضرت آدم علیہ السلام 3 حضرت شیث علیہ السلام 4 حضرت ابراہیم و حضرت
اسماعیل علیہ السلام 5 قوم عمالقہ 6 قبیلہ جرہم 7 قصی بن کلاب 8 قریش مکہ 9 حضرت
عبداللہ بن زبیر ( 65 ہجری 10 حجاج بن یوسف 71 ہجری 11 سلطان مراد تر کی 1040 ہجری
12 شاہ فہد بن عبد العزیز 1417 ہجری حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو کعبہ کی تعمیر
کا حکم ہوا تو اس وقت ان کی عمر 106 سال اور حضرت اسامعین کی عمر 20 سال
تھی ۔ حضرت ابرا ہم کہ آئے ہوئے تھے کہ انہیں بیت للہ ی تعمیر کا علم ہوا۔ باپ
بیٹے دونوں اس مشکل میں تے کہ کس جگہ تعمیر کیا جائے اور پھر اللہ نے ہی ان کی
مشکل آسان کی اور خانہ کعب کی پرانی بنیادوں کی نشاندہی کردی حضرت جبرائیل نے ایک
جگہ پاؤں مارا یہ دو جگہ تھی جہاں فرشتوں نے بیت المعمور کے عین نیچے اللہ کے گھر
کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کی بنیادوں کیلئے پانچ پہاڑوں جبل طور جبل ایتاء جبل لبنان
جبل جودی اور جبل حرا کے پھر استعمال کئے گئے۔
حضرت عبداللہ ابن عباس
کی روایت کے مطابق حضرت آدم علیہ السّلام نے بنیاد رکھی اور اس میں نماز پڑھی اور
اس کا اولین طواف کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ اللہ تعالٰی
نے حضرت جبرائیل علیہ السّلام کو حضرت آدم علیہ السلام کے پاس اس حکم کے ساتھ
بھیجا کہ حوا کو ساتھ لے کر میرا ایک گھر تیار کرو۔ جبرائیل علیہ السلام نے کعبہ
کی جگہ بتا دی اور ایک لکیر کھینچ دی۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اس جگہ کو کھودا
حضرت اماں حواشی اٹھا کر لاتیں۔ گھر بن گیا تو وحی آئی کہ روئے زمین پر یا للہ کا
پہلا گھر ہے اور تم اس کا طواف کرنے والے پہلے انسان ہو۔ حضرت شیث بن معاد کی
روایت ہے کہ یہ گھر ان پندرہ گھروں میں سے ایک ہے جن میں سے سات اور پر آسمانوں پر
اور سات نیچے زمینوں میں ہیں۔ ہر گھر حرم ہے اوپر والا گھر بیت المعمور ہے اور
درمیان میں کھب ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ
السّلام جب حضرت با جیرڈ اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو کہ میں چھوڑ کر روانہ
ہوئے تو کچھ فاصلے پر پہنچ کر انہوں نے بیت اللہ کی طرف رخ کر کے یہ دعا کی تھی اے
اللہ میں اپنی اولاد کو بنجر زمین میں تیرے محترم گھر کے پاس آباد کر رہا ہوں اس
دعا سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بیت اللہ کا جو آپ سے قبل بھی تھا۔ عمارت کا ڈھانچہ
منہدم ہو گیا تھا لیکن بنیادیں باقی تھیں۔ حضرت ابراہیم کے بعد بھی ان ہی بنیادوں
پر تیر ہوتی رہی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نے بیت اللہ کی عمارت منہدم کی اور دوبارہ
اس کی تعمیر میں عظیم کو شامل کیا تو اس وقت مشاہدہ کیا گیا کہ بنیادیں انھرے ہوئے
پھر جیسی تھیں ۔ یہ پھر کچھ اس طرح کے تھے جیسے اونٹ کے کو بان ۔ حال ہی میں یعنی
1417 ھ میں شاہ فہد نے خانہ کعبہ کے بہتر خستہ ہونے کی وجہ سے دوبارہ تعمیر شروع
کی اور جب تقریباً ڈیڑھ میٹر سے کچھ کم بیک کھدائی کی گئی تو دیکھا گیا کہ خانہ
کعب کی بنیاد میں پتھر جوڑ کر بنائی گئی ہیں اور ان میں کوئی مسالہ استعمال نہیں
ہوا۔
حضرت ابراہیم علیہ
السلام معمار کی طرح اس طرح پتھروں کو جوڑتے (جیسے پہاڑی علاقوں میں بغیر مٹی اور
گارا اسے دیواریں بنتی ہیں ) جب یہ پتھر اس حد تک لگائے جاچکے کہ زمین پر کھڑے ہو
کر مزید تعمیر ناممکن تھی تو حضرت اسماعیل علیہ السّلام ایک پتھر لائے جس پر چڑھ
کر دیوار میں مزید بلند کرنے لگے۔ اس پتھر پر آپ کے نقش قدم اب تک محفوظ ہیں اور
یہ مقام ابراہیم کے نام سے محفوظ ہے مشرقی سمت کی دیوار جب ایک خاص بلندی پر پہنچ
گئی تو جبرائیل جبل ابو نہیں سے حجر اسود اٹھا کر لائے۔ حجر اسود طوفان نوح کے
دوران بہہ کر جبل ابو قبیس پر چلا گیا تھا۔ جبل ابو نہیں سنا کی جانب دو پہاڑ ہے
جس پر اب سعودی حکمرانوں کے محلات ہیں۔
حضرت ابراہیم نے جن
بنیادوں پر خانہ کعبہ تعمیر کیا اس میں عظیم کا حصہ شامل تھا۔ اس طرح وہ ایک طرف
گول تھی اس کی اونچائی قد آدم کے برابر تھی اوراس میں کوئی دروازہ نہ تھا۔ قریش کی
تعیر المان نبوت سے پانچ سال پہلے ہوئی ۔ اس وقت سرمایہ کی کمی کی وجہ سے عظیم
والا حصہ باہر چھوڑ دیا گیا اور عمارت مستطیل کی بجائے چوکور ہوگئی۔ دروازہ کی
چوکھٹ کو بھی انسانی قد بتنا اونچا کر دیا گیا تا کہ کوئی اس میں داخل نہ ہو سکے۔ خانہ
کعبہ میں دروازہ لگایا گیا اور اس میں قتل بھی ڈالا گیا۔ مضبوط لکڑی کی چھت بنائی
گئی جو چھ ستونوں پر قائم تھی ۔ رکن عراقی کی جانب اس میں زینہ بھی بنایا گیا چھت
پر پرنالہ بنایا گیا جس کا پانی حطیم میں گرتا ہے۔
باب کعبہ:
حضرت ابراہیم نے خانہ کعبہ کی جو عمارت تعمیر کی تھی اس میں دو دروازوں کی جگہ بنائی گئی ۔ ایک دروازے کا مقام موجود و جگہ جبکہ دوسرے کا مقام اس کے عین مقابل باب فہد کی جانب (رکن یمانی سے تعلیم کی جانب ) تھا جس بند کر دیا گیا۔ تاہم اس کا نشان ابھی تک موجود ہے۔ حضرت ابراہیم کے بنائے گئے خانہ کعبہ میں لوگ مشرقی دروازے سے داخل ہوتے اور مغربی سے باہر نکل جاتے ۔ پہلی مرتبہ بین کے بادشاہ اسعد جمع ثالثہ نے ایک پٹ کا درواز ولگوایا۔ قریش نے جب اسیر شروع کی تو مغربی سمت (باب قبر کی جانب) والا دروازہ بند کر دیا۔ مشرقی دروازو کو زمین سے بلند کر کے دو پٹ کا دروازہ لگا کیا۔ موجودہ دروازه و الملک خالد بن عبد العزیز نے بنایا اور اس پر خالص سونے کا کام کروایا جو 1977ء میں قتل ہوا۔ اس دروازے پر دو کروڑ 34 لاکھ 20 ہزار ریال لاگت آئی ۔ 280 کلو سونے کی قیمت اس کے علاوہ ہے۔
قفل کعبہ
اب کی نہیں ہوتا اگا ہوا ہے اگر انتہائی قدیم ملک کا ہےلیکن موجود ال 1970 میں بنوایا گیا تاہم ایک سات پرانے قتل میں ہی رکھی گئی۔ اس تالے پر یہ عبارت بھی کندہ ہے۔ یہ خالد بن عبد العزیز آل سعود کے دور میں 1390 ہجری میں تیار کیا گیا۔
میزاب رحمت
میزاب رحمت اس پرنالے
کو کہتے ہیں جو کب کی چھت میں لگا ہوا ہے۔ اور کعبہ کی چھت کا پانی عظیم میں گرتا
ہے۔ قریش نے جب خانہ کعبہ پر چھت ڈالی تو اس میں پر نالہ بھی لگایا گیا۔ بزرگوں کا
قول ہے کہ اس کے نیچے دعا قبول ہوتی ہے۔ موجودہ میزاب رحمت 1417 ہجری میں لگایا
گیا لیکن یہ اسی طرح بنایا گیا جیسے 1273 ہجری میں سلطان عبدالمجید عثمانی نے
بنوایا تھا۔ میزاب رحمت کے اگلے حصے پر ہم اللہ الرحمن الرحیم اور یا الہ تحریر
ہے۔ جبکہ بائیں جانب عربی میں تحریر ہے کہ اس پر نالہ کی اصلاح وتجد یہ سعودی
فرمانزوا فہد بن عبدالعزیز آل سعود نے کرائی۔
عظیم خانہ کعبہ کا حصہ:
عظیم سے مراد بیت اللہ
سے ملحقہ وہ جگہ ہے جو نصف دائرے کی شکل میں ہے۔ اسے تجبر اسمائیل بھی کہا جاتا
ہے۔ حضرت ابراہیم نے اس عظیم والی جگہ پر حضرت اسماعین اور ائی والدہ کیلئے ایک
جھونپڑی بنائی تھی ۔ یہ حصہ بیت اللہ سے باہر تھا۔ البتہ تین میٹر حصہ جو قریش کی
تعمیر کے دور ان خانہ کعبہ سے باہر رہ گیا تھا وہ تین میٹر عظیم میں سے خانہ کعبہ
کا حصہ ہے اس طرح ہم سارے عظیم کو خانہ کعبہ کا حصہ نہیں کہہ سکتے۔ اصل بات یہ ہے
کہ خانہ کعبہ سے ملحقہ تین میٹر کا علاقہ خانہ کعبہ کا حصہ ہے۔ ابن ہشام کی سیرت
النبی میں ابن اسحاق کی روایت کے مطابق حضرت اسماعیلن کی عمر 130 سال تھی آپ کا
انتقال ہوا تو آپ کو عظیم میں اپنی والدہ ہاجرہ کے پاس دفن کیا گیا۔
مزید پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
0 تبصرے