"سرائیکی وسیب کا واسی اپنا دشمن خود ہے اور دوش کسی اور پر ڈالتا رہتا ہے" میں اپنے وی لاگز اور کالمز میں اپنی یہ بات ہمیشہ دہراتا رہتا ہوں کہ شاید کسی کے پلے پڑ جائے اور معاملات بہتری کی جانب رواں ہو جائیں مگر شومئی قسمت ہم یہ بات نہ خود سمجھتے ہیں اور نہ کسی کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی کھونٹے سے بندھے سائیں ، حضور ، مئیں سردار کی رٹ لگائے ہر بار اپنی بدقسمتی کے خانے میں مہر لگا آتے ہیں اور ہمارے ذہن ایسے بندہو چکے ہیں کہ ہمیشہ ایک ہی سوراخ سے ڈسے جاتے ہیں۔ ہم غلام ابن غلام ابن غلام کا وسیع نیٹ ورک چلاتےہیں مگر پھر بھی "ہم کوئی غلام ہیں" کا نعرہ بڑی ڈٹھائی سے لگاتے ہیں ، ہمارے اندر کا انسان ہم پر خوب ٹھٹھا لگاتاہے مگرہم پھر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے اور بے وقت کی بے وقعت راگنی الاپتے رہتے ہیں۔
گزشتہ روز تونسہ شہر سے گزر ہوا ، شہر کے بیچوں بیچ انڈس ہائی وے گندے پانے کے جوہڑ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ آنے جانے والا ہر انسان ہماری اس بے بسی اور کوڑھ مغزی پر ہنس بھی رہا تھا اور افسوس بھی کر رہا تھا کہ ابھی چند ہی روز قبل تونسہ کا ایک شہری پاکستان کے چند بااثر ترین عہدوں میں سے ایک پر براجمان تھا اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ وقت بدلا، حالات بدلے بلکہ تبدیلی آ گئی کے نعرے لگائے گئے مگر نہ بدلی تو تونسہ والوں کی قسمت نہ بدلی۔ وہی رات اندھیری تھی سو اب بھی اندھیرے کا راج ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں گزشتہ دنوں آنے والی بارش سے کلمہ چوک پر اتنا پانی تھا کہ متعدد گاڑیاں پانی میں بند ہو گئیں اور لوگ دھکا لگا کر اسے قریبی پٹرول پمپ پر کھڑا کر کے کے پبلک ٹرانسپورٹ پر گھروں کو لوٹے۔
یہ حالات تو شہر کی بڑی اور اہم سڑکوں کی ہے ، شہر کی گلیوں میں داخل ہوں حالت دیکھنے کے قابل نہیں ہے۔ بقول کچھ بااثر افراد کے تونسہ کی گلیوں میں ٹف ٹائل لگانے کیلئے کروڑوں اربوں کے فنڈز جاری کئے گئے۔ مگر ہمیں تو کوئی ایسی گلی نظر نہیں آئی جومکمل طور پر پختہ ہو ۔
ایک بار شہر کی گلیوں کو دیکھنے کا شوق چرایا تو ہم وہوا روڈ چھوڑ کر ایک گلی میں داخل ہو گئے۔ سب سے پہلے گردوغبار نے استقبال کیا۔ غور سے دیکھا تو ٹف ٹائل تو لگی ہوئی تھی مگر اس پر مٹی کی اتنی تہیں جم چکی تھیں کہ ٹف ٹائل کی زیارت کرنے کیلئے باقاعدہ کھدائی کرنےکی ضرورت پیش آ رہی تھی۔ کچھ آگے چلے تو بیچوں بیچ ٹف ٹائل ہی غائب تھی ۔ پریشانی ہوئی اور تفتیش بھی کہ لوگوں نے ٹف ٹائل کیوں اکھاڑ دی؟ مگر ساتھ ایک دکان کے قریب کھڑے ایک شخص سے معلوم ہوا کہ یہاں سے ٹف ٹائل اکھاڑی نہیں گئی بلکہ یہاں ٹف ٹائل لگائی ہی نہیں گئی۔اس کی وجہ جاننے پر معلوم ہوا کہ یہ چند جو گھر ہیں یہاں کے مکین مخالف امیدوار کے ووٹر ہیں اس لئے انہیں سبق سکھانے کیلئے یہاں ٹف ٹائل نہیں لگائی گئی۔اسی طرح مختلف گلیوں میں یہی صورتحال تھی۔ یوں یہ سمجھ آیا کہ تخت لاہور سے آنے والی ٹائلوں پر بھی کسی خاص پارٹی یا امیدوار کے حامیوں کا نام لکھا ہوا تھاجس طرح کہتے ہیں "دانے دانے پہ لکھا ہے کھانے والے کا نام " اس طرح اب اینٹیں بھی ٹیگز کے ساتھ آنےلگی ہیں۔ یہ ہے وہ اصل حقیقت جو تحصیل تونسہ میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے۔
اب آتے ہیں تحصیل تونسہ کے بہت ہی اہم معاملے کی طرف جس کا راگ ہر بندہ پچھلی دو دہائیوں الاپ رہا ہے۔ تونسہ ضلع کا مطالبہ سابق ایم پی اے سردار میربادشاہ قیصرانی اور اس وقت کے ایم این اے (جو موجودہ رکن قومی اسمبلی بھی ہیں )خواجہ شیراز محمود نے اس وقت کے وزیراعلیٰ( جو موجودہ وزیراعلیٰ بھی ہیں) چوہدری پرویز الہیٰ کے سامنے ان کے دورہ تونسہ کے موقع پر رکھاتھا۔ جسے وعدے کے باوجود چند نادیدہ ہاتھوں کے دباؤ پر بنانے کا اعلان نہ کیا تھا۔ اس پر سردارمیربادشاہ قیصرانی کچھ جذباتی بھی ہو گئے تھے اور کرسی بھی اٹھا لی تھی۔ مگر طاقتور لوگوں نے تونسہ کو ضلع نہ بننے دیا تھا۔ سابقہ انتخابات کی طرح 2018 کے الیکشن میں بھی تحریک انصاف کے تینوں امیدواروں (خواجہ شیراز محمود ایم این اے، خواجہ داؤد سیمانی ایم پی اے اور سردار عثمان بزدار ایم پی اے) نے اپنے انتخابی جلسوں میں تونسہ کو ضلع بنانے کے خوب اعلانات کئے اور وعدہ کیا کہ تونسہ کو ضلع ضرور بنایا جائے گا۔ جس پر اہل تونسہ نے امید باندھ لی کہ اب تو ضلع بن کے رہے گا اور یہ امید تب مزید مضبوط ہو گئی جب تونسہ سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے والے سردار عثمان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے۔ لوگوں نے سمجھا کہ اب دنوں کی بات ہے تونسہ ضلع بن جائے گا۔مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ اس سال نہیں اگلے سال اور پھر اگلے سال کی گردان نے عوام کو سوائے سبز باغ دیکھنے کے کچھ نہ ملا لوگوں نے ضلع کی امید میں بڑے ترقیاتی کاموں کا مطالبہ بھی نہ کیا کیوں کہ ان کی پہلی ترجیح ضلع تونسہ تھی حتیٰ کہ بزدار صاحب پونے چار سال وزیراعلیٰ رہنے کے بعد مستعفی ہو گئے اور ساتھ ہی عوام کی امیدوں پر بھی پانی پھیر گئے۔ " نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم" نہ ترقیاتی کام ہوئے اور نہ ہی تونسہ ضلع بن سکا۔ تونسہ والوں کے حصے میں پورے پنجاب کے لوگوں کی باتیں آئیں کہ سارے فنڈز تونسہ پر لگائے جا رہے ہیں مگر تونسہ والے محو حیرت ہیں کہ پنجاب کے سارے فنڈز کہاں گئےجو تونسہ آئے تھے۔ جبکہ وہ تو ہلکی سے بارش کے بعد اپنے گھروں سے بھی نہیں نکل سکتے۔ نہ تونسہ ضلع بنا، نہ وہوا تحصیل ، نہ یونیورسٹی بنی، نہ نئے کالجز ، نہ نئے ہسپتال بنے اور نہ ہی پرانے اپ گریڈ ہوئے۔ دانش سکول مکمل ہوا اور نہ لیہ تونسہ پل پروجیکٹ، نہ جانے یہ اتنے سارے فنڈز کونسی ڈائن کھا گئی ہے؟
0 تبصرے